سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(743) مسلم عورت كا کافر مرد سے نکاح

  • 18350
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 921

سوال

(743) مسلم عورت كا کافر مرد سے نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمانوں کی بیٹیوں کا کافروں سے نکاح کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی لحاظ سے یہ نکاح باطل ہے، جیسے کہ قرآن حکیم، سنت نبویہ اور اجماع مسلمین کی نصوص سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا وَلَعَبدٌ مُؤمِنٌ خَيرٌ مِن مُشرِكٍ وَلَو أَعجَبَكُم أُولـٰئِكَ يَدعونَ إِلَى النّارِ وَاللَّهُ يَدعوا إِلَى الجَنَّةِ وَالمَغفِرَةِ بِإِذنِهِ وَيُبَيِّنُ ءايـٰتِهِ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّرونَ ﴿٢٢١﴾... سورةالبقرة

’’مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو حتیٰ کہ وہ ایمان لے آئیں، اور البتہ ایمان دار لونڈی مشرکہ عورت سے کہیں بہتر ہے خواہ وہ عورت تمہیں کتنی ہی اچھی معلوم کیوں نہ ہو، اور (اپنی بیٹیاں)مشرک مردوں سے نہ بیاہو حتیٰ کہ وہ ایمان لے آئیں۔ (ان کے بالمقابل) کوئی ایمان دار غلام مشرک مرد سے کہیں بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ معلوم ہو۔ یہ مشرک تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنی آیات لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے تاکہ وہ نصیحت پائیں۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

﴿ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾... سورةالممتحنة

’’یہ مومن عورتوں ان کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں، اور نہ وہ کافر ان مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس عقد میں عورت کے لیے خطرہ ہے کہ وہ اسے اس کے دین و ایمان سے پھیر دے گا، کجا یہ کہ یہ عورت اس سے کوئی فائدہ پائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "یہ کفار تمہیں آگ کی دعوت دیتے ہیں۔" (البقرۃ: 2/221) اور ان کی یہ دعوت اعتقادات کے علاوہ قولی اور فعلی ہر اعتبار سے ہوتیہے جو انسان کے لیے دخول نار کا سبب ہے۔ اور نکاح کا رشتہ سب سے بڑھ کر مؤثر عامل ہے، جس سے یہ دعوت کسی انسان کے دل میں گھر کر سکتی ہے، اور شوہر اپنی بیوی سے اس وقت تک راضی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دین میں اس کی تابع نہ بنے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلَن تَرضىٰ عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـٰرىٰ حَتّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم...﴿١٢٠﴾... سورة البقرة

’’یہ یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہ ہوں گے حتیٰ کہ آپ ان کے دین کی پیروی کرنے لگیں۔‘‘

دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی کافر مرد کسی مسلمان عورت کے لیے کسی حالت میں بھی اس کا ہم پلہ (کفو) نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ زوجیت کے حقوق شوہر کے لیے کئی طرح کے حقوق کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء

’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں بسبب اس کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہوئی ہے۔‘‘

تو جب شوہر کافر ہو گا:

﴿وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ﴿١٤١﴾... سورةالنساء

’’اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔‘‘

علاوہ ازیں شوہر حسی اور معنوی لحاظ سے بیوی پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے متصادم ہوتی ہے:

الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ

’’اسلام غالب اور اوپر ہوتا ہے، اس پر کوئی اور غالب اور اوپر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب اذااسلم الصبی فمات،ھدیث:1935۔(مطلوبہ الفاظ اسی ترجمۃالباب کا ہی حصہ ہیں)سنن الکبری للبیھقی:205/6۔)

ضروری ہے کہ اس قسم کے احوال میں صدق و ثبات کا مظاہرہ کیا جائے اور ایسی عورتوں پر شریعت مطہرہ کے مطابق قانون نافذ کیا جائے جنہیں ان کے نفسوں نے اس طرح سے گمراہ کیا ہے۔ اگر کسی عورت نے یہ کام اسے حلال سمجھتے ہوئے کیا ہو تو وہ مرتد ہے اسی طرح اس کا ولی بھی مرتد ہے۔ اگر اس نے یہ کام حلال سمجھے بغیر کیا ہو تو یہ ایک جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے، مگر اسے مرتد نہیں کہا جائے گا۔ اگر اس نے یہ سب جانتے بوجھتے کیا ہو تو شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس پر حد رجم قائم کرنا واجب ہے۔ اگر وہ کنواری ہو تو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا جائے۔ اور یہ فیصلہ اس صورت میں ہے جب وہ علم و معرفت رکھتی ہو۔ اگر وہ جاہل ہو تو اس سے حد ساقط ہو جائے گی۔ کیونکہ شبہات کی صورت میں حدود ٹال دی جاتی ہیں۔ بہرحال ایسے زوجین میں تفریق کر دینا واجب ہے۔ اور شوہر پر بھی شریعت اسلامیہ کے مطابق سزا لاگو کی جائے۔ ولی امر (حاکم، قاضی) کو چاہئے کہ ان کی تفریق میں شرعی مصلحت اور اجتہاد سے کام لیں کہ یہ کس انداز سے ہو، حتیٰ کہ اگر مصلحت کا تقاضا ہو کہ انہیں بطور تعزیر قتل کرنا پڑے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں، اور یہ شرعا جائز ہو گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 532

محدث فتویٰ

تبصرے