سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(740) نکاحِ شغار

  • 18347
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2189

سوال

(740) نکاحِ شغار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مملکت عربیہ سعودیہ کے جنوب میں بعض قبائل کے اندر نکاح شغار بہت عام ہے (یعنی بدلے کا نکاح جسے ہمارے ہاں وٹہ سٹہ کہتے ہیں) اور بعض لوگ اس معاملے میں کئی طرح حیلوں سے بھی کام لیتے ہیں، اس ڈر سے کہ کہیں یہ نکاح ہی رد نہ کر دیا جائے۔ مثلا دونوں جانب کے مہروں میں اور ایام اور تواریخ میں فرق کر دیتے ہیں یعنی ایک اگر آج نکاح کرتا ہے تو دوسرا کچھ مدت کے بعد رجسٹرار کے ہاں اپنا نکاح درج کرائے گا۔ اور اسی انداز میں حیلے سے فتویی طلب کرتے ہیں۔ تو کیا ایسے طریقوں سے یہ نکاح شغار ہونے سے نکل جاتا ہے؟

بالخصوص جب دونوں جانب شرط یہی ہو کہ مجھے نکاح کر دو، میں تجھے نکاح کر دیتا ہوں، ورنہ نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مملکت عربیہ سعودیہ کے سابق مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے اسی قسم کا سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے جو جواب دیا تھا ہم اپنے سائل کو وہی جواب پیش کر دیتے ہیں جو درج ذیل ہے:

الحمدللہ! شغار (بدلے کا نکاح یا وٹہ سٹہ) یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی یا بہن کسی کو اس شرط پر نکاح کر دے کہ وہ بھی اسے اپنی بہن یا بیٹی نکاح کر دے گا، اور ان کے مابین کوئی حق مہر نہیں ہو گا، اس معاملے کو شغار کہا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس میں ایک قباحت ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ قباحت کتے کے اس عمل کے ساتھ مشابہ ہے جب وہ پیشاب کرنے کے لیے اپنی ٹانگ اٹھاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں شغر الكلب (جب وہ پیشاب کے لیے اپنی ٹانگ اٹھائے)۔ گویا ان متعاقدین میں سے ہر شخص اپنے مقصد کی خاطر اپنی ٹانگ اٹھا لیتا ہے۔ یا یہ بھی کہا گیا ہے کہ لغت میں "شغار" خالی ہونے کو بھی کہتے ہیں۔ شغر المكان یعنی جب وہ جگہ خالی ہو۔ تو نکاح شغار (بروزن فعال) اس طرح ہے کہ دونوں جانب کے آدمی عصمت کے بدلے عصمت خالی کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ نکاح حرام اور شریعت اسلامی اور اس کے تقاضوں کے خلاف ہے، جیسے کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

عن نافع عن ابن عمر رضى الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار۔ والشغار هو ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الاخر ابنته، وليس بينهما صداق

’’جناب نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کسی کو اس شرط پر نکاح کر دے کہ وہ اپنی بیٹی اسے نکاح کر دے گا، اور ان دونوں کے درمیان حق مہر نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب الشغار،حدیث:4822وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم نکاح الشغاروبطلانہ،حدیث:1415وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب تفسیر الشغار،حدیث:3337۔)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں شغار نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ،ھدیث:1415وسنن الترمذی،کتاب النکاح،باب النھی عن نکاح الشغار،حدیث:1123،سنن النسائی،کتاب النکاح،باب الشغار،حدیث:3335۔)

عن ابى هريرة رضى الله عنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم  عن الشغار، والشغار: ان يقول زوجنى ابنك وازوجك ابنتى او زوجنى اختك و ازوجك اختى

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے سے کہے کہ مجھے اپنی بیٹی کا نکاح دے دو میں تجھے اپنی بیٹی کا نکاح دے دیتا ہوں، یا مجھے اپنی بہن کا نکاح دے دو میں تجھے اپنی بہن کا نکاح دے دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ،حدیث:1416ومسند احمد بن حنبل:439/2،حدیث:9655۔)

عن ابى الزبير انه سمع جابر بن عبدالله رضى الله عنهما يقول: نهى النبى صلى الله عليه وسلم عن الشغار

’’حضرت ابو زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، فرماتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ:33/4،حدیث:17507’’ان الفاظ کے ساتھ روایت حجرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے،حوالہ پیچھے گزر چکاہے۔)

عن عبدالرحمن بن هرمز الاعرج ان العباس بن عبدالله بن عباس انكح عبدالرحمن بن الحكم ابنته وانكحه عبدالرحمن ابنته وقد كانا جعلا صداقا۔ فكبت معاوية ابى سفيان الى مروان بن الحكم يامره بالتفريق بينهما و قال فى كتابه: هذا الشغار الذى نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم

’’عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج روایت کرتے ہیں کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن الحکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس بن عبداللہ سے کر دیا، جبکہ ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا (یا یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے اس نکاح ہی کو حق مہر بنایا تھا) تو جناب امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (امیر مدینہ) مروان بن حکم کو لکھا کہ ان دونوں میں تفریق کرا دو۔ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خط میں لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی الشغار،حدیث:2075ومسند احمد بن حنبل:94/4،ھدیث:16902۔)

علمائے کرام کا شغار کی تعریف اور اس نکاح کی صحت کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ شغار کی دو قسمیں ہیں:

1: ایک وہ جو احادیث میں بیان ہوئی ہے یعنی جانبین سے عصمتوں کا حق مہر سے خالی ہونا۔

2: جانبین کے ولی ایک دوسرے سے یہ شرط رکھیں کہ اپنی ولیہ کا مجھ سے نکاح کر دو (میں تجھ سے کر دیتا ہوں)۔

کچھ علماء نے صرف پہلی صورت کا اعتبار کیا ہے، دوسری کا نہیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ نکاح شغار جائز نہیں لیکن (اگر ایسا کر لیا گیا ہو تو) اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے۔

جمہور کہتے ہیں کہ ایسا نکاح باطل ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ ہے کہ ایسی صورت میں زوجین میں اگر ملاپ نہ ہوا ہو تو اس کو فسخ کر دیا جائے، اور اگر ملاپ ہو گیا ہو تو فسخ نہ کیا جائے۔ ابن منذر نے اوزاعی سے ایسے ہی نقل کیا ہے۔

علمائے احناف کہتے ہیں کہ شغار کی صورت ہو گئی ہو تو نکاح صحیح ہے مگر حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ امام زہری، مکحول، ثوری، لیث، اسحاق، ابو ثور رحمہم اللہ اور ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایسے ہی ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں لکھتے ہیں: فقہاء کا اس کے بارے میں اختلاف ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک شغار باطل ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی ولیہ کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کر دے کہ دوسرا اپنی ولیہ کا نکاح اس سے کر دے اور ان کے درمیان کوئی حق مہر نہ ہو۔ اگر وہ اس کے ساتھ مہر مقرر کر لیں تو امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اما خیرقی کہتے ہیں کہ خواہ مہر بھی مقرر کر لیں تو صحیح نہیں ہو گا۔ جناب ابوالبرکات ابن تیمیہ وغیرہ اصحاب احمد بھی یہی کہتے ہیں کہ (نکاح صحیح نہیں) خواہ مہر مقرر کریں اور کہیں کہ ہر فریق دوسرے کا حق مہر معاف کر دے تو یہ صحیح نہیں ہو گا، اور اگر ایسی بات نہ کہیں تو صحیح ہو گا۔ اور "المحرر" میں ہے: جس شخص نے اپنی ولیہ کا نکاح اس شرط سے کیا کہ دوسرا اپنی ولیہ اس کو نکاح کر دے گا، اور اس نے قبول کر لیا، اور ان کے درمیان مہر نہ ہوا تو یہ عقد صحیح نہیں ہو گا، اور اسے نکاح شغار کہا جاتا ہے۔ اور اگر مہر مقرر کریں تو اس تعین سے یہ نکاح صحیح ہو گا۔ اور کہا گیا ہے کہ اگر اس میں یوں کہہ دے کہ ہر عورت کی عصمت دوسری کے لیے مہر ہو گی تو یہ صحیح نہیں۔ اگر ایسا نہیں کہا گیا تو صحیح ہو گا، اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔

چونکہ اس مسئلے میں اختلاف ہے اس لیے ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ جو صورت بلا اختلاف صریح شغار ہے یعنی کسی بھی عورت کے لیے مہر نہ ہو بلکہ ہر ایک کی عصمت دوسری کے بدلے میں ہو، یا مہر انتہائی قلیل برائے نام بطور حیلہ کے رکھا گیا ہو، تو ایسا نکاح باطل ہے، اسے فسخ کیا جائے گا، خواہ یہ دخول سے پہلے ہو یا اس کے بعد۔ شریعت نے شغار کو حرام قرار دیا ہے اور اس میں ولی کی طرف سے غیر ذمہ داری کا اظہار ہے حالانکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ عورت کے لیے انتہائی خیر خواہی اور دنیا و آخرت کے معاملات میں اس کا بہترین معاون بنے۔

یہ قطعا روا نہیں کہ ولی محض اپنے جذبات کو پیش نظر رکھے یا ظؒم کرے یا ولیہ کا کوئی خیال ہی نہ کرے۔ یہ عورت اس کی لونڈی نہیں ہے یا کوئی جانور نہیں ہے یا ایسی چیز نہیں ہے کہ اپنی خواہشات کے لیے اسے پیش کر ڈالے۔ بلکہ یہ ذمہ داری ایک بڑی نعمت ہے۔ اس پر واجب ہے کہ اس کی شادی میں شوہر کے کفر ہونے، حق مہر کے معیاری ہونے کا ضامن بنے۔ ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اگر کسی ولی میں ایسی صورت کا اظہار ہو کہ وہ اپنی ولیہ کے حقوق میں بے پروائی کرنے والا ہو یا اپنی خواہشات کو اس پر ترجیح دینے والا ہو یا اسے کسی مال کے بدلے دے دینا چاہتا ہو یا بدلے میں نکاح میں لینا چاہتا ہو، یا اس کے نکاح میں محض اس وجہ سے تاخیر اور ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو اور انتظار کر رہا ہو کہ جو اس کے مطالبات پورے کر دے گا، اسے نکاح کر دے گا وغیرہ تو ایسے شخص کی ولایت ختم ہو جاتی ہے، اور اس عورت کو حق ہے کہ اپنی ولایت کسی ایسے شخص کی طرف تحویل کر دے جو اس کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ہو۔

اور سائل نے جو یہ بیان کیا ہے کہ قبائل بنی حارث وغیرہ میں نکاح شغار بہت عم ہے، تو اس سائل اور دیگر تمام باحمیت مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان لوگوں کو زبان و بیان سے اس فعل کی برائی سے متنبہ کریں اور ڈرائیں، اگر اس طرح ان کی اصلاح نہ ہوتی ہو تو انہیں چاہئے کہ یہ معاملہ حکام کے روبرو پیش کریں۔ حکام ان شاءاللہ ایسی تدابیر اختیار کریں گے جن سے حق ثابت اور قائم ہو گا اور باطل باطل ہو جائے گا اور اس طرح اسلام کی حرمت محفوظ اور اس کے تقاضوں پر عمل ہو گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 526

محدث فتویٰ

تبصرے