السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں، میرے ہاں اس شوہر سے ایک بیٹا بھی ہے۔ میرا شوہر ایک اور شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک عورت کے لیے عفت کا باعث بنے گا، حالانکہ وہ عورت معروف عمر سے گزر چکی ہے اور اس نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے۔ کیا میرے شوہر کا یہ عزر قابل قبول ہے؟ اور اگر میں اس کے لیے رضا مندی کا اظہار نہ کروں تو کیا گناہ گار ہوں گی؟ خیال رہے کہ شوہر مالی اعتبار سے صاحب حیثیت ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرد اگر دوسری شادی کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے قطعا پابند نہیں ہے کہ وہ اس کا عذر بھی بیان کرے۔ یہ معاملہ بنیاد طور پر مباح ہے اور فقہائے امت کا اس پر اجماع ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے کسی اجازت،کسی براءت یا عذر پیش کرنے کا محتاج اور پابند نہیں ہے۔ کتب فقہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ آپ ان کا مراجعہ کریں گے تو آپ کو یہی ملے گا کہ مرد کے لیے ایک یا دو یا تین یا چار تک بیویوں کر لینا مباح ہے۔ یہ قرآن کریم کی نص، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ کا فعل ہے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ آزادی نسواں کا نعرہ لگاتے ہیں اور وہ ان کے حقوق ضائع کرنے کے مجرم ہیں۔
ذرا غور کریں جو آدمی دوسری شادی کرنا چاہ رہا ہے وہ کسی مرد سے شادی کر رہا ہے یا عورت سے؟ یقینا وہ کسی عورت ہی سے شادی کرے گا اور اس کی رضا مندی سے کرے گا۔ اس عورت کے بھی تو کچھ حقوق ہیں، اور ان میں اس کا باعصمت اور عفیف بھی ایک حق ہے۔ اور وجو عورت ایک بار شادی کر چکی ہو اور پھر اس کا شوہر فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دی ہو تو کیا اس سے اس کے لیے دوبارہ شادی کرنے کا موقع ضائع ہو گیا؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اسے حق حاصل ہے کہ شادی کر لے۔
اور احادیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور مردوں کی کم ہو رہی ہے جیسے کہ صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کی علامات میں سے یہ بات بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گی، جہالت عام ہو جائے گا، عورتیں زیادہ اور مرد کم ہو جائیں گے، حتیٰ کہ پچاس پچاس عورتوں کے لیے ایک نگران اور ذمہ دار ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب یقل الرجال ویکثر النساء،حدیث:4933وسنن الترمذی،کتاب الفتن،باب اشراط الساعۃ،حدیث:2205۔)
اور صحیح بخاری میں ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہیں، حرم میں الحاد کا مرتکب، اسلام میں جاہلیت کا عمل رائج کرنے والا اور ناحق خون کا مطالبہ کرنے والا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الدیات،باب مامن طلب دم امرءبغیر حق،حدیث:6688والسنن الکبری للبیھقی:27/8،حدیث:15680۔)
اور اس قسم کی بات آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں بھی فرمائی تھی:
ألا كُلُّ شَيْءٍ من أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ
’’خبردار! جاہلیت کی تمام رسمیں میرے ان دو قدموں تلے روندی جا رہی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب ھجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:1218وسنن الدارمی:67/2،حدیث:1850)
مقصد یہ ہے کہ ایک ہی بیوی پر کفایت کی مہم چلانا اور اس کا چرچا کرنا،اور اس کے بالمقابل دوسری،تیسری شادی کو مکروہ اور ناپسندیدہ جاننا یقیناً جاہلیت کا کام ہے اور اس سے ظاہری وباطنی فحاشی وبدکاری کے دروازے کھلتے ہیں جیساکہ نئی تہذیب کے آثار ثابت کررہے ہیں۔پہلی بیوی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابندی بھی،شرعی امور میں داخل اور معقول کی قسم سے ہے اور معاشرے کی ایک بڑی تعداد کو شوہروں کے بغیر عفت وطہارت سے محروم رکھنے کا عمل ہے جو سراسر جہالت اور جاہلیت ہے جس کے تمام امور رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک قدموں تلے روند دیے ہیں۔
الغرض شوہر اپنی دوسری شادی کرنے کے لیے کسی قسم کا عذر پیش کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ اور آپ، بحیثیت بیوی کے، اگر اپنے شوہر کے اس مطالبے کر رد بھی کر دیں تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن جو شوہر اپنی بیوی سے اجازت لے کر شادی کرنے کا خواہاں ہے وہ کبھی شادی نہیں کر سکے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب