السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا، تو بوقت نکاح اس سے شرط کی گئی کہ وہ اس پر کسی اور عورت سے نکاح نہیں کرے گا نہ اسے اس کے گھر سے کہیں اور لے جائے گا۔ اور اس عورت کی ایک بیٹی بھی تھی، اس کے متعلق شرط کی گئی ہے کہ یہ اپنی ماں کے پاس رہے گی۔ تو اس نے یہ سب باتیں قبول کر لیں۔ تو کیا اسے ان شرطوں کا پورا کرنا لازم ہے؟ اور اگر وہ ان میں سے کسی شرط کے خلاف کرے تو کیا بیوی کو فسخ کا حق حاصل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں، اس طرح کی شرطیں امام احمد، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے ہاں معتبر ہیں۔ مثلا حضرت عمر بن خطاب، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، قاضی شریح، اوزاعی اور امام مالک کے نزدیک یہ ہے کہ اگر وہ اس پر کسی اور عورت سے شادی کر لے یا لونڈی لے آئے تو عورت کا معاملہ اس کے اپنے ہاتھ ہو گا۔ یہ شرط صحیح ہے اور اس کی خلاف ورزی پر وہ علیحدگی کا اختیار رکھتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ
’’سب سے بڑھ کر پوری کیے جانے کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے سے تم عصمتیں حلال کرتے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشروط،باب الشروط فی المھر عند عقد النکاح،حدیث:2572وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب الوفاءبالشروط فی النکاح،حدیث:1418وسنن الدارمی:191/2،حدیث:2203۔)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے:
مَقَاطِعَ الْحُقُوقِ عِنْدَ الشُّرُوطِ
’’حقوق شرطوں کے مطابق ہی پورے ہوتے ہیں، ورنہ ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرطوں کو سب سے زیادہ لائق وفا قرار دیا ہے جن کے ذریعے سے آدمی کسی عورت کی عصمت کو اپنے لیے حلال بناتا ہے۔ اس مسئلہ میں یہی نص ہے۔ ویسے اجماعی طور پر نکاح میں حق مہر اور کلام (ایجاب و قبول) کے علاوہ اور کوئی شرط لازم نہیں ہے، بنیادی شرطیں یہی ہیں۔
اور یہ شرط کیا جانا کہ عورت کا بچہ اس کے پاس رہے گا اور اس کا خرچ شوہر کے ذمے ہو گا تو یہ گویا حق مہر میں اضافہ ہے۔ اور حق مہر میں ایک طرح سے جہالت (عدم معلومات) کا احتمال ہو سکتا ہے، جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بصراحت موجود ہے۔ علاوہ ازیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی ایسے ہی ہے۔ جبکہ بییع کی قیمت اور مزدور کی مزدوری میں جہالت صحیح نہیں۔ اور وہ جہالت (عدم معلومات) جو حق مہر مین جہالت کے مشابہ ہو وہ بالاولیٰ جائز ہو گی۔ مثلا جیسے کہ مذہب امام احمد میں ہے کہ اگر کوئی مزدور اس شرط پر رکھا گیا ہو کہ اسے روٹی اور کپڑا دیا جائے گا تو اس شرط میں اعتبار عرف پر ہو گا۔ لہذا بچے کے خرچ کا شرط کا مسئلہ بھی عرف ہی سے طے کیا جائے گا۔
اور شوہر اگر یہ شرطیں پوری نہ کرے، اور کسی اور عورت سے شادی کر لے یا لونڈی لے آئے تو عورت کو اپنا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن آیا وہ عورت خود فسخ کر لے یا قاضی فسخ کرے، اس میں اختلاف ہے۔ کیونکہ یہ اختیار ایک اجتہادی اختیار ہے، جیسے کہ شوہر کے نا مرد ہونے یا اس میں کوئی اور عیب ہو تو عورت کو اختیار ہوتا ہے۔ اس میں اختلاف ہے۔
ان کے ثبوت میں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ ان کی وجہ سے نکاح کے فسخ ہونے میں اختلاف ہے، جیسے کہ آزاد ہونے والی لونڈی کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ اس کے ثبوت کے قائل ہیں تو ان کے نزدیک قاضی کے فیصلے سے پہلے ہی فسخ ہو جائے گا۔
اور اس مسئلے میں اصل بات قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر یہ فسخ قاضی کے فیصلے پر موقوف نہ ہو تو قوی تر یہ ہے کہ اس فسخ میں اختلاف ہے جیسے کہ عنین ہونا قاضی کے فیصلے کا محتاج نہیں ہے لیکن معاملہ اگر قاضی کی طرف چلا جائے، تو چاہے وہ جو فیصلہ دے اور اگر وہ اسے باطل کرنا چاہے تو باطل کر سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب