سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(707) ﴿وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾ آیت کی توضیح

  • 18314
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1289

سوال

(707) ﴿وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾ آیت کی توضیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ النساء کی آیات ﴿وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾ ۔۔ الخ کی توضیح فرما دیجئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے ان عورتوں کے متعلق بیان فرمایا ہے جن سے آدمی کے لیے نکاح کرنا حرام ہے اور اس حرمت کے اسباب تین ہیں:

(1)نسب (2) رضاعت (3) مضاربت (یعنی تعلق نکاح یا سسرالی رشتہ)

چنانچہ وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ (النساء: 22/4)  میں یہ ہے کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ جن عورتوں سے اس کے باپ یا دادا اور ان سے اوپر کسی نے نکاح کیا ہو، یہ نکاح کر سکے، اور اس لفظ ’’جد‘‘ میں دادا اور نانا دونوں شامل ہیں، اور اس نکاح میں دخول یا عدم دخول کی کوئی شرط نہیں ہے۔ یعنی محض عقد بھی ہوا ہو تو یہ رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔

چنانچہ جب کسی آدمی نے کسی عورت سے نکاح صحیح کیا ہو تو وہ عورت اس آدمی کے (فرع یعنی) بیٹے، پوتے، نواسے سب کے لیے حرام ہو گی، خواہ یہ کتنے ہی نیچے چلے جائیں۔

اور ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ﴾ میں عورتوں کا بیان ہے جو نسب کی بنا پر حرام ہوتی ہیں اور وہ سات ہیں:

1۔ مائیں، اور ان سے اوپر دادیاں اور نانیاں

2۔ بیٹیاں، اور جو ان سے نیچے ہوں یعنی نواسیاں اور پوتیاں

3۔ بہنیں، خواہ حقیقی ہون یا پدری یا مادری

4۔ پھوپھیاں، یعنی باپ دادا کی بہنیں، اور خواہ ان سے اوپر کی ہوں اور وہ حقیقی ہوں یا پدری یا مادری، حقیقی پھوپھیاں وہ ہیں جو والد کی حقیقی بہنیں ہیں، اور وہ بھی جو باپ کی پدری نہ ہوں یا مادری ہوں۔

5۔ خالائیں، یعنی ماں کی بہنیں اور ان سے اوپر کی۔ خواہ ماں کی حقیقی بہنیں ہوں یا ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے۔

خیال رہے کہ جو عورت ایک شخص کی خالہ یا پھوپھی ہے وہ اس شخص کی فروع (اولاد) کی بھی خالہ اور پھوپھی ہی ہے۔آپ کے باپ کی پھوپھی آپ کی بھی پھوپھی ہے اور آپ کے والد کی خالہ آپ کی بھی خالہ ہے۔ اور ایسے ہی آپ کی ماں کی پھوپھی آپ کی پھوپھی ہے اور آپ کی ماں کی خالہ آپ کی بھی خالہ ہے اور اسی طرح آپ کے دادا یا دادی کی خالہ اور پھوپھی بھی آپ کی خالہ یا پھوپھی کے حکم میں ہو گی۔

6۔ بھتیجیاں (بھائی کی بیٹیاں) اور ان کے نیچے۔ یہ بھائی خواہ حقیقی ہو یا ماں یا باپ کی طرف سے، ان کی بیٹیاں آپ کے لیے حرام ہیں۔ اسی طرح بھتیجی کی نواسی یا بھتیجی کی پوتی، خواہ ان سے کتنی ہی نیچے چلی جائیں۔

7۔ بھانجیاں (یعنی بہن کی بیٹیاں) بالکل اسی تفصیل کے ساتھ جو بھتیجیوں میں بیان ہوئی ہے۔

یہ سات نسبی رشتے کی عورتیں ہیں جو مرد کے لیے حرام ہیں، ان کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ آدمی کے لیے وہ سب عورتیں حرام ہیں جو اس کے لیے بمنزلہ اصول ہوں خواہ کسی قدر اوپر تک چلی جائیں، اور فروع (یعنی اولاد/بیٹیاں پوتیاں نواسیاں) نیچے تک۔ ماں باپ کی فروع (یعنی آدمی کی بہنیں، بھتیجیاں، بھانجیاں نیچے تک) اوردادا دادی، نانا نانی کی فروع (یعنی آدمی کی خالائیں اور پھوپھیاں) یعنی ان کی خاص صلبی اولاد۔ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ ’’اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ کی بہنیں۔‘‘

اس میں ان رشتوں کا بیان ہے جو رضاعت (یعنی دودھ پینے پلانے) سے حرام ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃ علی الانساب والرضاع،حدیث:2502وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب تحریم الرضاعۃ من ماءالفحل،حدیث:1445وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب ما یحرم من الرضاع،حدیث:3301وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1937۔)

یعنی مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں اور بھانجیاں جس طرح نسب سے حرام ہیں اسی طرح رضاعی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی اور بھانجی بھی حرام ہے۔

وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ ۔۔۔ "اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور ربیبائیں جو تمہاری تربیت میں ہوں، تمہاری ان بیویوں کی بیٹیوں جن سے تم نے ملاپ کیا ہو، اگر تم نے ان سے ملاپ نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں۔"  یہ تین رشتے نکاح کے تعلق سے حرام ہوتے ہیں۔ "بیویوں کی مائیں" (یعنی ساس) آدمی کے لیے حرام ہے کہ اپنی بیوی کی ماں سے نکاح کرے، خواہ کوئی اس سے اوپر تک ہو اور خواہ وہ اس کی حقیقی ماں ہو یا سوتیلی۔ اور یہ محض عقد نکاح ہی سے حرام ہو جاتی ہے، خواہ آدمی عورت سے مقاربت کرے یا نہ کرے، اس کی ماں آدمی کے لیے محرم بن جاتی ہے، خواہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے یا لڑکی فوت ہو جائے، اس کی ماں اس کے لیے محرم ہی رہے گی اور اس عورت کے لیے جائز ہو گا کہ اس آدمی کے سامنے اپنا چہرہ کھول لے، اس کی معیت میں سفر کرے اور اس کے ساتھ علیحدگی میں بیٹھے، اس پر کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ بیوی کی ماں اور دادی/نانی محض عقد ہی سے حرام ہو جاتی ہیں۔ یہ ۔۔ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ ۔۔ کے عموم میں شامل ہیں۔ اور جب  آدمی کسی عورت سے عقد نکاح کر لے تو وہ اس کے لے بیوی کے حکم میں آ جاتی ہے۔

وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم ۔۔۔ ’’تمہاری ربیبائیں‘‘ اس سے بیوی کی بیٹیاں اور اس کی دوسری اولاد کی بیٹیاں مراد ہیں، خواہ اس سے نیچے تک ہوں۔ جب آدمی کسی عورت سے شادی کر لیتا ہے تو اس عورت کی وہ بیٹیاں جو سسابقہ شوہر سے ہوں، اس دوسرے شوہر کے لیے حرام ہو کر اس کی محرم بن جائیں گی، اسی طرح دوسری اولاد کی بیٹیاں بھی، یعنی اس کے بیٹے کی بیٹی اور بیٹی کی بیٹی۔ مگر اس رشتہ میں اللہ عزوجل نے دو شرطیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ وہ تمہاری تولیت اور تربیت میں ہو، اور دوسری یہ کہ بیوی سے (اس لڑکی کی ماں سے) آپ نے مباشرک کی ہو۔ پہلی ششرط کے بارے میں جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ یہ شرط تغلیبی ہے (یعنی بالعموم ایسے ہوتا ہے کہ پچھلے شوہر کی اولاد، اس دوسرے شوہر کے گھر میں عورت کے ساتھ آ جاتی ہے)، حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے۔ لہذا یہ لڑکی اس کی تولیت اور تربیت میں ہو یا نہ ہو، دوسرے شوہر کے لیے حرام ہی ہو گی۔ اور دوسری شرط کہ آدمی نے اس بیوی سے مقاربت کی ہو، یہ اپنے حقیقی معنی و مفہوم کے ساتھ ہی معتبر ہے۔ اسی لیے آگے اس کی صراحت فرما دی ہے کہ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ (النساء: 4/33) ’’یعنی اگر تم نے ان سے مقاربت نہ کی ہو تو (اس کی بیٹی سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾ ۔۔۔ ’’اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے حقیقی صلبی بیٹے  ہوں۔‘‘ اس سے مراد حقیقی بیٹے کی بیوی ہے، یا جو اس سے نیچے ہو یعنی پوتے کی بیوی بھی محض عقد سے آدمی کے لیے حرام ہو جائے گی۔ اگرچہ وہ اسے عقد کے بعد ہی طلاق دے دے۔ تو وہ لڑکی طلاق دینے والے کے باپ اور دادا کے لیے حرام ہو گی۔ ﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ اور کوئی عورت محض نکاح ہی سے اپنے شوہر کی "حلیلہ" ہونے کے معنی میں آ جاتی ہے۔

الغرض یہ نسب، رضاعت اور مصاہرت تین اسباب ہیں جن سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔

نسب سے حرام ہونے والے رشتے سات ہیں، اور رضاعت سے حرام ہونے والے بھی بالکل یہی رشتے ہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃ علی الانساب والرضاع،حدیث:2502وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب تحریم الرضاعۃ من ماءالفحل،حدیث:1445وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب ما یحرم من الرضاع،حدیث:3301وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1937۔)

اور مصاہرت (نکاح کے تعلق یا سسرالی تعلق) سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں، جو یوں بیان ہوئے ہیں:

1:﴿ وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾ ۔۔ الخ ’’جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو تم ان سے نکاح نہ کرو۔‘‘

2: ﴿وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ﴾ ’’تمہاری بیویوں کی مائیں (یعنی ساس)۔‘‘

3: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم ’’تمہاری ربیبائیں (یعنی وہ لڑکیاں جو عورت کے پہلے خاوند سے ہوں)۔‘‘ ان سے بھی آدمی نکاح نہیں کر سکتا، اس صورت میں کہ آدمی کا اس ربیبہ کی ماں سے صنفی ملاپ ہوا ہو۔

4: ﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾ ’’اور تمہارے صلبی بیٹیوں کی بیویاں‘‘

یہ رشتے ابدی طور پر حرام ہیں۔

اور کچھ رشتے ایسے ہیں جو ایک وقت تک کے لیے حرام ہیں۔ مثلا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ اور فرمایا:

' وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ ' یہ نہیں فرمایا کہ ' واخوات نسائكم ' کہ تمہاری بیویوں کی بہنیں تم پر حرام ہیں۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو اپنے سے علیحدہ کر دے اور پھر وہ کل طور پر اس سے جدا ہو جائے کہ اس کی عدت ختم ہو جائے تو جائز ہے کہ آدمی اس کی بہن سے نکاح کر لے۔

اسی طرح عورت اور اس کی پھوپھی اور عورت اور اس کی خالہ کو جمع کرنا بھی حرام ہے۔ جیسے کہ حدیث میں آیا ہے: ’’جن عورتوں کو جمع کرنا حرام ہے وہ تین ہیں: دو بہنیں، عورت اور اس کی پھوپھی، عورت اور اس کی خالہ۔‘‘ مگر ان کے علاوہ مثلا چچا زاد اور ماموں زاد کو جمع کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کا جمع کر لینا جائز ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 505

محدث فتویٰ

تبصرے