السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے ایک کنواری لڑکی سے بدکاری کی، اور اب اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر واقعہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ذکر کیا گیا ہے تو اولا ان دونوں پر واجب ہے کہ اللہ کی طرف توبہ کریں، اس جرم سے باز آ جائیں اور اس بدکاری سے جو ان سے ہوئی اس پر ندامت کا اظہار کریں اور یہ عزم بھی کریں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ اور کثرت سے اعمال خیر اپنائیں، امید ہے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تابَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَإِنَّهُ يَتوبُ إِلَى اللَّهِ مَتابًا ﴿٧١﴾... سورةالفرقان
’’اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور مبود کو نہیں پکارتے، اور جس جاندار کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقے سے (یعنی شریعت کے حکم سے)، اور بدکاری نہیں کرتے، اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا،قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہو گا اور ذلت و خواری سے ہمیشہ اس میں رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور جو توبہ کرتا اور نیک عمل کرتا ہے تو بےشک وہ اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘
اور اگر یہ آدمی اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ لڑکی کو ایک حیض سے استبراء کرائے۔ اگر معلوم ہو کہ اسے حمل ہے تو اسے اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے تا آنکہ وضع حمل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہی تقاضا ہے:
’’آپ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی کھیتی کو پانی دے۔‘‘( سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی وطی السبایا،حدیث:2158ومسند احمد بن حنبل:108/4،حدیث:17031۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب