سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(699) ايامِ عدت میں مطلقہ کی رضاعی بہن سے شادی کرنا

  • 18306
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 727

سوال

(699) ايامِ عدت میں مطلقہ کی رضاعی بہن سے شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب ایک آدمی کے پاس ایک بیوی ہو اور پھر اسے طلاق دے دے اور اس کی عدت کے ایام ہی میں اس کی رضاعی بہن سے شادی کر لے، تو کیا یہ نکاح صحیح ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب یہ ثابت شدہ ہو کہ اس کی رضاعت دو سال کی عمر کے اندر اندر ہوئی تھی، اور پانچ رضعات (پانچ بار) تھی، تو یہ نکاح صحیح نہیں ہے۔ کتاب اللہ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم....وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

’’تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں ۔۔ اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃعلی الانساب والرضاع،حدیث:2502،سنن النسائی،کتاب النکاح،باب مایحرم من الرضاع،حدیث:3301،وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب،حدیث:1937۔) جب یہ مطلقہ اپنی عدت مکمل کر لے، تب اگر یہ اس کی رضاعی بہن سے نکاح کرنا چاہے تو پیغام دے سکتا ہے۔ ([1]) (محمد بن ابراہیم)


[1] شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے بھی اسی کے قریب قریب ایک سوال ہوا تھا کہ ایک شخص نے عدت کے دوران نکاح کر لیا تھا۔تو ان کا جواب اس طرح ہے۔۔۔۔۔"نکاح مذکورہ باطل ہے اور مہر واجب الاداءہے۔اور اگر عورت کو رکھنا منظور ہوتو دوبارہ نکاح کیا جاوے۔اور اگر ناکح کو قبل نکاح کے اس امر کا علم ہو گیا تھا کہ ابھی عدت پوری نہیں ہوئی یا شک واقع ہوا تھا،مگر اس نے قصداتحقیقات نہیں کی اور نکاح کرلیا،تو اس کو توبہ کرنا چاہیے۔ادلہ ان کی ذیل میں لکھی جاتی ہیں:

’’جب تک عدت پوری نہ ہوجائے نکاح نہ کرو۔‘‘

((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قال:ایماامراۃنکحت نفسھا بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فان دخل بھا فلھا المھر بما استحل من فرجھا۔))

(رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ والدارمی)

’’جو عورت بغیر اپنے ولی کی اجازت کے اپنا نکاح کرائے اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاھ باطل ہے۔اور اگر مرد اس سے صحبت کرچکا ہو تو اس کے عوض اس کا حق مہر ادا کرے۔‘‘(ملاحظہ ہو:فتاویٰ نذیریہ،جلد دوم،ص:93۔392)کتاب النکاح،ناشر مکتبہ المعارف الاسلامہ گوجرانوالہ

 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 496

محدث فتویٰ

تبصرے