سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(688) وراثت کی خاطر پہلے خاوند سے طلاق لر کر وکیل سے شادی کرنا

  • 18295
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 581

سوال

(688) وراثت کی خاطر پہلے خاوند سے طلاق لر کر وکیل سے شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت نے اپنے والد کی وراثت میں اسے اپنا حصہ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کرانے کے لیے ایک وکیل سے رابطہ کیا۔ اس نے اس کام کے لیے اس قدر رقم کا مطالبہ کیا جو وہ ادا نہیں کر سکتی تھی۔ پھر اس نے عورت سے کہا کہ اگر تم مجھ سے شادی کر لو تو ان اخراجات کے سلسلے میں میرا کوئی مطالبہ نہ ہو گا۔ عورت شادی شدہ ہے، اس کے دو بچے ہیں، شوہر البتہ غیر ملک میں ہے اور اسے اور بچوں کا خرچ بھیجتا رہتا ہے۔ بہرحال عورت نے پہلے شوہر سے فسخ نکاح کے لیے اس وکیل کو اپنا نمائندہ بنا دیا اور وہ سب کچھ ہو گیا جو اس نے چاہا، اور اس دوران میں پہلے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، حالانکہ عورت کے پاس اس کا پتہ وغیرہ سب موجود تھا۔ اس نکاح کا کیا حکم ہے اور بچوں کے اخراجات اور تربیت کا کون ذمہ دار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ یہ ایک فعل حرام، انتہائی قبیح جرم اور ایک باطل حیلہ ہے، جبکہ عورت پہلے ایک آدمی کی عصمت میں ہے اور وہ اسے اور اس کی اولاد کیے لیے اخراجات بھی بھیجتا رہا ہے۔ اور اس وکیل نے جو اس کا نکاح فسخ کرایا ہے کہ خود اس سے نکاح کر لے، حالانکہ پہلے شوہر سے رابطہ ممکن تھا، اور اس کا عذر دیکھا جانا چاہئے تھا کہ وہ گھر کیوں نہیں آ رہا، اور پھر اسے ایک مناسب مدت کی مہلت بھی دی جاتی۔ الغرض اگر یہ فسخ حاکم شرعی کی طرف سے ہوا ہے اور اس نے اس مقدمہ کے تمام اسباب و جوانب ملاحظہ کیے ہیں اور فسخ کی وجودہ بھی دیکھی ہیں تو حاکم کے فسخ کرنے سے یہ نکاح فسخ ہو گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ سب حرام ہے اور عورت پہلے شوہر کی عصمت میں ہے اوردوسرے کا نکاح حرام ہے، اور اولاد اپنی والدہ کے ساتھ ہے۔ اگر دوسرے آدمی نے ان کا انکار کیا تو یہ ذمہ داری عورت کے قرابت داروں یا بچوں کے والد کے قرابت داروں کی طرف منتقل ہو گی۔ اگر باپ جلد ہی واپس آ جاتا ہے تو وہ حسب احوال اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 489

محدث فتویٰ

تبصرے