السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دوشیزہ کو ایک نیک صالح نوجوان کا پیغام آیا ہے مگر وہ اس شادی سے انکار کر رہی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ لڑکا ناپسندیدہ ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اس کے گھر والوں میں غیبت اور چغل خوری کی بد عادت ہے۔ تو کیا اس کا اس وجہ سے اس شادی سے انکار کرنا صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب لڑکی کو علم ہے کہ اس کے گھر والوں نے اس پیغام دینے والے کا اس کے دین و اخلاق کی بنا پر اس کے لیے انتخاب کیا ہے تو اسے چاہئے کہ اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے۔ اور اس کا یہ کہنا کہ اس کے گھر والے غیبت وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو اس کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ ان کے لیے ایک حرام کام ہے، جب اسے ایک صالح بر مل رہا ہے تو محض اس وجہ سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔ ان کی اس خرابی کی اصلاح کرنا ممکن ہے کہ انہیں پند و نصیحت کی جائے یا اللہ کا خوف یاد دلایا جائے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی ایسی مجالس میں نہ بیٹھے جن میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ ان کی ہر مجلس میں شرکت کرے جس میں غیبت وغیرہ ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کمزوری کی وجہ سے جس کی اصلاح ممکن ہے، جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، یہ دوشیزہ ایک صالح شوہر سے محروم ہو جائے جس کا اس کے گھر والوں نے انتخاب کیا ہے، بلکہ اسے اس خیر اور بھلائی کو حاصل کر لینا چاہئے یعنی اس صالح آدمی سے شادی کر لے۔
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ فضیلۃالشیخ رحمہ اللہ کا مشورہ یقیناً صائب،عمدہ اور قابل عمل ہے،مگر اس صورت میں جب اس جوڑے کے لیے اپنا علیحدہ گھر ہو۔اگر ایک مختصر گھر کے اندر مخلوط انداز میں رہائش ہو تو ان معاشرتی بیماریوں سے بچنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔بالخصوص جب گھر کے بڑے اور اہم افراد غیبت جیسے برے کام کے عادی ہوں تو اس گھر میں آنے والی نوعمر،نوخیز دوشیزہ کو ان سب لوگوں سے علیحدہ رہنا اور علیحدہ روش اختیار کرنا ایک بڑے امتحان میں پڑنے والی بات ہے۔ہاں اگر یہ لڑکی اپنی عمر اور اپنے علم کی بنیاد پر مؤثر ہوسکتی ہو تو الگ بات ہے۔شرعی اور اخلاقی اعتبار سے افضل اور اعلیٰ بات یہی ہے کہ ہر نئے تشکیل پانے والے جوڑے کے لیے ان کا اپنا علیحدہ گھر ہونا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب