السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خاندانی منصوبہ بندی یا تحدید نسل کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ آج کل کا ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس بارے میں پوچھا بھی بہت جاتا ہے۔ چنانچہ کبار علماء کی مجلس کے گزشتہ اجتماع میں اس پر بحث بھی ہوئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مانع حمل گولیوں کا استعمال جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے یہ مشروع فرمایا ہے کہ ایسے اسباب و ذرائع اختیار کریں جو ان کی نسل کو بڑھائیں اور امت کی کثرت ہو۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
(تزوجوا الودود الولود فانى مكاثر بكم الامم يوم القيامة ([1]) وفى روايته۔ مكاثر الانبياء يوم القيامة (مسند احمد بن حنبل:158/3،حدیث:12634وصحیح ابن حبان:338/9،حدیث:4028۔)
’’محبت کرنے والی زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادیاں کرو، بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘
امت اس امر کی بہت زیادہ محتاج ہے کہ اس کی تعداد کثرت میں ہو تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں، اور اللہ کی توفیق سے مسلمانوں کا ان کے دشمنوں سے دفاع کرنے والے ہوں۔
واجب یہ ہے کہ منع حمل وغیرہ کے حیلے بہانے وغیرہ چھوڑے جائیں اور انتہائی خاص اہم ضرورت کے علاوہ اس کے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ اور جہاں فی الواقع ضرورت ہو مثلا عورت کے رحم میں کوئی بیماری اور خرابی ہو یا کوئی اور بیماری لاحق ہو جس میں حمل نقصان دہ ہو یا بچے بہت زیادہ ہو گئے ہوں کہ اب مزید کے لیے اس کی صحت متحمل نہ ہو سکتی ہو تو حسب ضرورت اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ بچے زیادہ ہوں تو وقفہ بڑھانے کے لیے گولیاں استعمال کی جا سکتی ہیں تاکہ سال دو سال کے لیے کچھ توقف ہو جائے اور عورت کو راحت مل جائے اور بچوں کی کماحقہ تربیت بھی کر سکے۔ لیکن اگر یہ گولیاں وغیرہ اس غرض سے استعمال کی جائیں کہ ملازمت اور نوکری کے لیے فراغت رہے، یا ویسے ہی رفاہیت (اور بے فکری) کی زندگی گزارے، یا اسی طرح کے دوسرے حیلے بہانے جو عام طور پر عورتیں بیان کرتی ہیں، تو یہ قطعا جائز نہیں ہیں۔
[1] سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب تزوج الولود،حدیث:2050وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب کراھیۃ تزویج العقیم،حدیث:3227،والمستدرک للحاکم:176/2،حدیث:2685۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب