السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱) ایک آدمی کے پاس دو مکان ہیں ایک میں خود رہتا ہے ۔ دوسرے مکان کو کرایہ پر دے رکھا ہے۔ مکان کی مالیت ایک لاکھ ہے آدمی کے پاس نقد کوئی روپیہ نہیں ہے اس پر زکوٰۃ ہو گی یا نہیں ؟
(۲) ایک ملازم سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا بوقت ریٹائر منٹ اس کو پچاس ہزار روپیہ ملا۔ اس رقم سے اس نے دوکان ڈالی۔ دوکان سے اس کی سالانہ آمدنی اتنی ہوتی ہے جس سے اس کا گھریلو خرچ بمشکل پورا ہوتا ہے کیا اس پر زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) مکان پر زکاۃ نہیں ہاں اگر مکان کرایہ پر دیا ہوا ہے تو اگر کرایہ اور دیگر نقدی ملا کر نصاب کو پہنچ جائے تو پھر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے اگر کرایہ وغیرہ نقدی نصاب سے کم ہے تو ثواب کی خاطر اس سے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے فرض و ضروری نہیں ۔
(۲) سرکاری ملازم کو بوقت ریٹائر منٹ جتنا مال ملا اگر اس میں سود شامل ہے تو جتنا سود اس میں شامل ہے وہ تو حرام ہے کیونکہ قرآن مجید میں«وَحَرَّمَ الرِّبٰو» باقی مال اس کا ہے جو اس کی ملازمت کا معاوضہ ہے اور یہ معاوضہ بھی اس صورت میں حلال ہو گا جس صورت میں اس کی ملازمت شرعاً جائز ہو اور اگر وہ ملازمت ہی شرعاً ناجائز ہے مثلاً سودی کاروبار میں منشی ، منیجر یا کلرک وغیرہ بننا توپھر وہ معاوضہ بھی حلال نہیں۔ کسی شخص کی آمدنی اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکاۃ فرض ہو جاتی ہے خواہ اس کا گھریلو خرچ بمشکل پورا ہو خواہ بسہولت یاد رہے نصاب52/1/2تولہ چاندی ہے یا اس کی مالیت نقدی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب