سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(634) نكاح کے وقت حق مہر کی شرط لگانا

  • 18241
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1090

سوال

(634) نكاح کے وقت حق مہر کی شرط لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں بعض علاقوں میں ایسے ہوتا ہے کہ جب کوئی نوجوان کسی خاندان میں نکاح کا پیغام دیتا ہے تو لڑکی کا والد بیش قیمت مہر کی شرط رکھتا ہے، اور پھر جب نکاح ہو جاتا ہے تو لڑکی اس کے شوہر کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیتا ہے، اور مطالبہ کرتا ہے کہ لڑکا اس باپ کی خدمت کرے۔ اس طرح لڑکی بھی انتہائی اذیت میں پڑتی ہے۔ تو کیا لڑکی کو اپنے شوہر کے گھر چلے جانا چاہئے یا باپ ہی کے گھر رہے؟ اس قسم کے بہت سے واقعات سے بڑی مشکلات دیکھنے میں آتی ہیں۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ لوگوں کو ان امور میں حق و صواب کی رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے مشروع فرمایا ہے کہ بیٹیوں کے مہروں میں تخفیف اور میانہ روی اپنائیں اور اسی طرح ولیموں کا معاملہ ہے، تاکہ ہر فریق آسانی اور سہولت کے ساتھ شادی کا مرحلہ طے کر لے، اور خیر کے اس کام میں ایک دوسرے کو تعاون ملے، نوجوان اور دوشیزائیں عفیف اور پاک دامن رہیں۔

ہم نے اس موضوع پر نصیحت، خیرخواہی اور تواصی بالحق کے جذبے سے کئی بار لکھا ہے اور ہئیۃ کبار العلماء کی جانب سے بھی کئی قراردادیں اور نشریے شائع کیے گئے ہیں، ان کا موضوع و مضمون یہی تھا کہ نکاحوں میں مہر کم رکھے جائیں، ولیموں میں تکلف نہ کیا جائے اور عوام کو ترغیب و تشویق دی گئی ہے کہ نوجوان کے لیے نکاح کا مرحلہ جہاں تک ہو سکے آسان بنایا جائے۔ اور اب بھی میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے یہی کہوں گا کہ نوجوانوں کے لیے اس فریضہ کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ نکاح اور شادیاں بہت زیادہ ہوں، سفاح اور بدکاری کا قلع قمع ہو، نوجوان اور دوشیزائیں اپنی نظروں کی حفاظت کر سکیں اور ان کی عصمتیں محفوظ رہیں۔ اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان مقاصد کے حصول کا عظیم ترین ذریعہ نکاح و زواج ہی ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِيعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وَجَاءٌ)

’’اے نوجوانو! تم میں سے جو طاقت رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ شادی کر لے، بلاشبہ یہ اس کے لیے آنکھ نیچی رکھنے اور عصمت کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھا کرے، یہ اس کے جذبات کو کچل دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم،حدیث:4779،وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ،حدیث:1400وسنن النسائی،کتاب الصیام،باب ذکر الاختلاف علی محمد بن ابی یعقوب فی حدیث ابی امامة فی فجل الصائم،حدیث:2242وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاھ،باب ماجاءفی فضل النکاح،حدیث:1845۔)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت میں ہو، اللہ عزوجل اس بندے کی ضرورت میں (اس کے ساتھ) ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب المظالم،باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ،حدیث:2310وصحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ والاداب،باب تحریم الظلم،حدیث:2580وسنن الترمذی،کتاب الحدود،باب الستر علی المسلم،حدیث:1426وسنن ابی داود،کتاب الادب،باب المواخاۃ،حدیث:4893۔)

ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں:

(والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون اخيه)

’’اللہ عزوجل اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاءوالتوبہ والاستغفار،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن ولی الذکر،حدیث:2699۔سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی المعونۃللمسلم،حدیث:4956،وسنن الترمذی،کتاب الحدود،باب الستر علی المسلم،حدیث:1425وسنن ابن ماجہ،کتاب الایمان وفضائل الصحابۃ والعلم،باب فضل العلماء،حدیث:225۔)

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نیکی و تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا معاون بننے کا حکم دیا ہے، اور ایسے صالح بندے جو حق کی بات کہتے اور صبر سے کام لیتے ہوں، ان کی اللہ نے بہت مدح فرمائی ہے:

﴿وَالعَصرِ ﴿١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ ﴿٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ ﴿٣﴾... سورةالعصر

’’قسم ہے زمانے کی، بلاشبہ انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے اور صبر کی تاکید کرتے ہیں۔‘‘

اور یقینا مہر کم کرنے اور ولیموں میں تخفیف کرنے کے معاملے میں لوگوں کا تعاون کرنا اور باتوں کی تلقین و تاکید کرنا اللہ عزوجل کے اس ارشاد میں شامل ہے۔ اگر حق مہر کم ہوں اور ولیموں کے تکلفات مختصر ہوں تو اس میں یقینی فائدہ یہی ہو گا کہ شرعی نکاح بہت کثرت سے ہوں گے، بے نکاح لڑکے لڑکیوں کی کثرت میں کمی آئے گی، ان کی نظریں پاکیزہ اور جھکی رہیں گی، عصمتیں محفوظ ہوں گی، فواحش کی راہیں بند ہوں گی اور امت مسلمہ کی گنتی بڑھے گی، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’محبت کرنے والی زیادہ بچے ججنے والی عورتوں سے شادیاں کرو، بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب من تزوج الولود،حدیث:2050وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب کراھیۃ تزویج العقیم،حدیث:3227والمستدرک للحاکم:176/2،حدیث:2685۔بعض روایات میں ہے’’میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسرے انبیاءپر فخر کروں گا۔‘‘مسند احمد بن حنبل:158/3،حدیث:12634وصحیح ابن حبان:338/9،حدیث:4028۔)

اور ایسے باپ یا بھائی جو نکاح ہو جانے کے بعد اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ روانہ نہیں کرتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ لڑکا ان کی خدمت کرے، ان کی بھیڑ بکریاں یا اونٹ وغیرہ چرائے، تو یہ ایک بہت برا اور غلط کام ہے، جو کسی صورت جائز نہیں ہے۔ بلکہ ولی امر (حاکم) کا فرض ہے کہ ایسے امور میں لوگوں کی مدد کرے جن سے زوجین کے اکٹھے رہنے اور ان کے آپس کے حالات عمدہ اور بہترین ہو سکتے ہیں۔ جس طرح کہ اس کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ ایسے حالات سے ان لوگوں کو متنبہ کرے اور بچائے جو ان میں فرقت و افتراق کا باعث بن سکتے ہوں، سوائے اس کے کہ کوئی شرعی رکاوٹ ہو۔

اور میں عورتوں اور لڑکیوں کے اولیاء اور سرپرستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنی ان لڑکیوں اور عورتوں کی شادیاں ان کے ہم پلہ افراد سے کرنے میں تاخیر نہ کیا کریں، خواہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہوں، بلکہ اس بارے میں ان کی حتی الامکان مدد کریں، اور اللہ کے اس فرمان پر عمل کریں:

وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم إِن يَكونوا فُقَراءَ يُغنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٣٢﴾... سورةالنور

’’اور تم میں وہ لوگ جن کی شادیاں نہیں ہوئیں ہیں ان کے نکاح کر دو اور اسی طرح اپنے غلام اور لونڈیوں کے بھی، اگر یہ فقیر ہوئے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اللہ عزوجل نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ مسلمان معاشرے میں جو لوگ نکاح کے بغیر ہوں (کنوارے، رنڈوے، طلاق یافتہ وغیرہ) حتیٰ کہ غلام اور لونڈیاں جو صالح ہوں، سب کو نکاح والی زندگی گزارنی چاہئے۔ اور فرمایا: اللہ کا فرمانا اور خبر دینا عین حق اور سچ ہے کہ اللہ کا فضل حاصل کرنے کے لیے ایک عظیم سبب نکاح بھی ہے، اور اس میں شوہروں اور اولیاء کو تسلی دی گئی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ فقر اور تنگی کوئی ایسا سبب نہیں ہے جو نکاح و شادی کے لیے مانع یا رکاوٹ ہو، بلکہ یہ تو غنا اور رزق کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور سبب ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 446

محدث فتویٰ

تبصرے