سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(632) ولیوں کا نام بدل کر گواہ بنانا

  • 18239
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1107

سوال

(632) ولیوں کا نام بدل کر گواہ بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کا باپ، بھائی اور باپ کی طرف سے نکاح کے لیے وکیل بھی موجودہے، مگر وہ اپنا اور اپنے باپ کا نام بدل کر گواہ پیش کرتی ہے، اور دعویٰ کرتی ہے کہ جس آدمی نے مجھے طلاق دی تھی، وہ مجھ سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے، اور ایک اجنبی آدمی پیش کر دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ میرا بھائی ہے، پھر اسی کے مطابق تحریر ہو جاتی ہے مگر پھر سب کچھ جو اس نے کیا ہے ظاہر ہو گیا اور قاضی کے سامنے بھی اس کا جھوٹ ثابت ہو گیا تو کیا اسے تعزیر لگائی جائے؟ اور کیا وہ لوگ جنہوں نے اس کا تعارف کرایا اور جس نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عورت کا بھائی ہے، اور جن لوگوں نے گواہوں کا تعارف کرایا، انہیں بھی تعزیر لگائی جائے اور کیا یہ تعزیر حاکم لگائے یا محتسب کا نائب؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عورت کو بڑی سخت تعیر لگائی جانی چاہئے۔ اگر ولی امر تکرار کے ساتھ تعزیر لگائے تو بہت بہتر ہے، جیسے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس قسم کے معاملات میں جس میں کئی طرح کے حرام کا ارتکاب کیا گیا ہوتا تھا، تکرار کے ساتھ تعیر لگاتے تھے۔ پہلے دن سو درے، دوسرے دن سو درے اور تیسرے دن سو درے۔ اس تفریق کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ مجرم کا کوئی عضو شل نہ ہو جائے۔ اس عورت نے اپنا باپ بدلا ہے، ایک اجنبی کو اپنا بھائی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے، نبی علیہ السلام نے فرمایا:

’’جو اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنا نسب جوڑے یا (کوئی غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ غیروں سے اپنی نسبت ملائے تو اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اللہ اس سے کوئی فرض یا نقل قبول نہیں کرے گی۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الوصایا،باب فیمن تولی غیر موالیہ او ادعی الی غیر ابیہ،حدیث:2127وسنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب لاوصیۃ لوارث،حدیث:2712۔مسند احمد بن حنبل:238/4،حدیث:18111۔فتویٰ میں ذکر کیے گئے الفاظ مسند احمد کی روایت کے ہیں،دیگر کتب میں یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مروی ہے۔(عاصم)ایک روایت میں'یقبل اللہ منہ'کے بعد'یوم القیامۃ'کے الفاظ بھی ہیں۔دیکھیے مسند احمد حنبل:81/1،حدیث:615۔صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل المدینۃ ودعاءالنبی فیھا بالبرکۃ،حدیث:1370۔)

حضرت سعد اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے:

’’جس نے اپنا نسب اپنے باپ کے علاوہ کسی غیر سے جوڑا اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃالطائف،حدیث:4071۔صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ وھو یعلم،حدیث:63۔سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی الرجل یتمنی الی غیر موالیہ،حدیث:5113۔سنن ابن ماجہ،کتاب الحدود،باب من ادعی الی غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ،حدیث:2610)اس روایت کے راوی حضرت سود اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہما ہیں جبکہ فتویٰ میں’’ابوبکر‘‘لکھا گیا ہے جو سہو ہے اور احادیث میں یہ الفاظ ہیں’’۔۔۔۔۔۔سے جوڑا،اور وہ جانتا بھی ہو۔۔۔۔۔‘‘)

بلکہ اس سے بھی سخت ترین وعید ثابت ہوئی ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص جانتے بوجھتے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے اپنا نسب جوڑے، تو وہ کافر ہوا، اور جو کسی ایسی چیز کا مدعی بنے جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے، اور جو کوئی کسی کو کافر کہے یا اللہ کا دشمن کہے (اور وہ ایسا نہ ہو) تو یہ باتیں اس کہنے والے ہی پر لوٹ آتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایما،باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ وھو یعلم،حدیث:61۔مسند احمد بن حنبل:166/5،حدیث:21503۔السنن الکبری للبیھقی:407/7،حدیث:15112۔)

ان احادیث میں ایسی باتوں پر انتہائی سخت تشدید اور وعید آئی ہے، ان کا مرتکب اس لائق ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔ یا اسی طرح کی کوئی اور سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ اس عورت نے گواہوں کو دھوکہ دیا اور انہیں جھوٹی گواہی میں ملوث کیا اور پھر ایک باطل نکاح کیا۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہوتا ہے، اور جو ایسا کرے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرتے ہوئے تعزیر لگاتے ہیں، اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ بلکہ ایک گروہ تو اس کو رجم کرنے کو بھی کہتا ہے۔ اور حضرات مطلق طور پر بلا ولی نکاح جائز بتلاتے ہیں۔ وہ بھی اس انداز سے نسب بدلنے اور جھوٹا ولی بنانے کو قطعا جائز نہیں کہتے ہیں۔ تو ان باتوں پر بالاتفاق سزا ہے۔

اس عورت کو اپنے متعلق جھوٹ بولنے پر بھی سزا دی جائے، اور اس دعوے پر بھی کہ یہ شخص پہلے اس کا شوہر تھا اور اس نے طلاق دے دی تھی۔ اور اس شوہر کو اور وہ آدمی جس نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عورت کا بھائی ہے، انہیں بھی سزا دی جائے۔ کہ اس کی شادی ہوئی تھی، پھر طلاق ہوئی، اور اب ولی حاضر نہیں ہے، چاہئے کہ ان سب کو سخت سزا دی جائے، بلکہ فقہائے کرام کی یہ صریح ہے کہ جھوٹے گواہ کا منہ کالا کیا جائے۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ ایسے ہی کیا کرتے تھے، اس اشارہ کے تحت کہ جھوٹے کا منہ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ اسے سواری پر الٹے منہ بٹھایا جائے، اس مفہوم سے کہ اس جھوٹے گواہ نے بات بدلی ہے، اور پھر شہر میں گھمایا جائے تاکہ اس کی شہرت ہو کہ یہ جھوٹا گواہ ہے۔

ان کو تعزیر لگانا کسی خاص حاکم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ولی امر میں سے جو بھی مسئول اور ذمہ دار ہو اور یہ کام کر سکتا ہو، حاکم محتسب وغیرہ کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔

اور اس قسم کے حالات میں جب کہ عورتوں میں فتنہ و فساد بہت زیادہ ہو رہا ہے یہ سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’لوگ جب کوئی برائی دیکھیں اور پھر اس کی اصلاح نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے سزا ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر،حدیث:4005مسند احمد بن حنبل:1/2،حدیث:1،مسند ابی یعلی:119/1،حدیث:131۔)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 443

محدث فتویٰ

تبصرے