السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی کے چچا زاد نے اس کا نکاح کر دیا ہے جبکہ لڑکی کا بھائی بعمر پندرہ سال موجود ہے، اور اس نے اس نکاح پر اعتراض بھی کیا ہے کہ وہ اس پر راضی نہیں، اور اس چچا زاد کے پاس نہ اس بھائی کی طرف سے نہ لڑکی کے والد کی طرف سے کوئی وکالت نامہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب لڑکی کا حقیقی بھائی موجود ہے جس کی عمر پندرہ سال ہے اور وہ اچھی سمجھ بوجھ والا ہے، ان مسائل میں کفو اور مصالح کو سمجھتا ہے اور شہر کے اندر حاضر موجود بھی ہے، تو ولی وہی ہے۔ اس طرح یہ نکاح ولی نہ ہونے کے باعث فاسد ہے۔ ضروری ہے کہ ان زوجین میں تفریق کرائی جائے اگر وہ اکٹھے رہ رہے ہوں۔ ورنہ بھائی کی ولایت میں نئے عقد کے بغیر ان کا ملاپ صحیح نہیں، بشرطیکہ اس بھائی میں ولی ہونے کی شرطیں موجود ہوں۔ اگر یہ بھائی اپنے اس چچا زاد ہی کو تمام لوگوں کی رضامندی سے تجدید عقد کے لیے اپنا وکیل بنا دے تو مقصود حاصل ہو گیا اور رکاوٹ دور ہو گئی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب