السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کوئی دوشیزہ اپنے والد کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہے؟ اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کے آپس میں ٹیلی فون پر رابطے ہوتے ہیں یا دوستی کے نام پر خط لکھے جاتے ہیں، ان کا شرعی حکم کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے قطعا جائز نہیں ہے کہ اپنے والد کی اجازت کے بغیر شادی کرے، کیونکہ وہ اس کا ولی ہے، اور ان معاملات میں سب سے بڑھ کر بہتر سوچ رکھتا ہے۔ تاہم باپ کو بھی جائز نہیں ہے کہ جب اس کی بیٹی کسی صالح کفو کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو وہ اس کو رد کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جب تمہارے پاس کوئی شخص (نکاح کی غرض سے) آئے جس کا دین و امانت تمہارے نزدیک پسندیدہ ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر تم نہیں کرو گے تو زمین میں ایک بڑا فتنہ و فساد ہو جائے گا۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب النکاح،باب اذاجاءکم من ترضون دینہ فزوجوہ،حدیث:1084و1085۔سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب الاکفاء،حدیث:1967۔المستدرک للحاکم:179/2،حدیث:2695۔)
اور بیٹی کو لائق نہیں ہے کہ کسی ایسے شخص سے شادی کے لیے اصرار کرے جسے اس کا والد ناپسند کرتا ہے، کیونکہ والد اس کی نسبت زیادہ وسیع النظر ہے، اور لڑکی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ شاید اس سے شادی نہ کرنے میں بہتری ہو اور اللہ عزوجل فرماتا ہے:
﴿وَعَسىٰ أَن تُحِبّوا شَيـًٔا وَهُوَ شَرٌّ لَكُم ...﴿٢١٦﴾... سور ةالبقرة
’’ہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو پسند کرو اور (در حقیقت) وہ تمہارے لیے بری ہو۔‘‘
نیز اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کرے کہ وہ اس کے لیے کوئی صالح بر مقدر فرما دے۔ اور کسی نوجوان لڑکی کو روا نہیں ہے کہ اس کے اور کسی لڑکے کے مابین دوستی کے نام پر ٹیلی فون پر یا خط کتابت کا رابطہ ہو۔ کیونکہ ان چیزوں کے نتائج ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں، لڑکا غلط طور پر اس پر ڈورے ڈال سکتا ہے اور لڑکی بھی اس عمل سے حیا باختہ ہو سکتی ہے، علاوہ ازیں اور بھی کئی خطرات ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب