السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بعض جگہ کسی شخص کی وفات پر لوگ ان امور کی پابندی کرتے ہیں۔
(۱) میت کی تدفین کے بعد مسلسل تین دن تک مغرب سے عشاء تک پابندی کے ساتھ حاضری دیتے ہیں یعنی میت والے گھر میں ۔
(۲) ان تین ایام میں مقامی مسجد کے خطیب صاحب اس اجتماع سے خطاب کرتے ہیں۔
جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ :
(i) تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟
(ii) سوگ کسے کہتے ہیں اور کیا میت کے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے پر سوگ منانا لازمی ہے ؟
(iii) اس اجتماع کے موقع پر تقریر کرنا کسی شرعی نص سے ثابت ہے ؟
(iv) تعزیت کے لیے کسی مخصوص وقت کی پابندی لازمی ہے یا جب بھی کسی کو فراغت ملے تب تعزیت کرے ؟ یبنوا فجزاکم اﷲ خیرا الجزاء له الحمد فی الاولی والآخرة !؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں اہل میت کو تسلی دی جائے ، صبر کی تلقین کی جائے اور مصیبت پر صبر جمیل کے اجر کا تذکرہ کیا جائے۔ بہتر ہے تعزیت کے لیے ان ہی الفاظ کا انتخاب کیاجائے جو رسول اللہﷺتعزیت کے موقع پر استعمال فرمایا کرتے تھے(1)موقع کی مناسبت سے کچھ اور الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کتاب وسنت کے مخالف نہ ہوں ۔
(۲) سوگ ترک زینت کا نام ہے ۔ اچھے کپڑے نہ پہننا زیور نہ پہننا اور پہنا ہوا اتار دینا خوشبو وغیرہ نہ لگانا گھر سے باہر نہ نکلنا وغیرہ سوگ ہے یہ عورتوں کے لیے ہے چنانچہ حدیث ہے :
«لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلاَّ عَلٰی زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا»(بخارى-كتاب الجنائز-باب احداد المراة على غيرزوجها)
’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے علاوہ خاوند کے پس بے شک وہ خاوند پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے‘‘
(۳) شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ أحکام الجنائز وبدعها‘‘ کے صفحہ ۱۶۷ پر لکھتے ہیں ۱۱۴
«ويَنْبَغِی اجْتِنَابُ أَمْرَيْنِ وَإِنْ تَتَابَعَ النَّاسُ عَلَيْهِمَا (أ) اَلْاِجْتِمَاعُ للِتَّعْزِيَةِ فِی مَکَانٍ خَاصٍ کَالدَّارِ أَوِ الْمَقْبَرَةِ أَوِ الْمَسْجِدِ (ب) اِتَّخَاذُ أَهْلِ الْمَيِّتِ الطَّعَامَ لِضِيَافَةِ الْوَارِدِيْنَ لِلْعَزَائِ ۔ وَذٰلِکَ لِحَدِيْثِ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ الْبجلی رضی اللہ عنہ قال : کُنَّا نَعُدُّ (وفی رواية : نَرَی) الْاِجْتِمَاعَ إِلٰی أَهْلِ الْمَيِّتِ وصَنْعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ»اخرجه احمد(رقم6905)وابن ماجه(490/1)والرواية الاخرى له واسناده صحيح على شرط الشيخين وصحيح النووى(320/5)والبوصيرى فى الزوائد
’’اور دو کاموں سے بچنا چاہیے اگرچہ لوگ وہ کام کر رہے ہیں (۱) کسی خاص مقام میں تعزیت کے لیے جمع ہونا مثلاً گھر میں یا قبرستان میں یا مسجد میں (ب) اہل میت کا مہمانوں کی ضیافت کے لیے کھانا تیار کرنا جو تعزیت کے لیے آئے ہیں اور یہ اس لیے کہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم شمار کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے ہم سمجھتے تھے میت کے گھر جمع ہونا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ ہے‘‘
تو جب اجتماع ہی ثابت نہیں تو میت والوں کے گھر اجتماع میں تقریر کرنا شرعی نص سے کیونکر ثابت ہو گا؟
(۴) تعزیت کے لیے وقت کی تخصیص وتحدید کہیں نہیں آئی تین دن غیر شوہر کے لیے اور چار ماہ دس دن شوہر کی خاطر عورت کے سوگ کے لیے ہیں نہ کہ تعزیت کے لیے اور نہ ہی مردوں کے سوگ وتعزیت کے لیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(1)«اِنَّ لِلّٰهِ مَا اَخَذَ وَلَهُ مَا اَعْطَی وَکُلُّ شَيْئٍ عِنْدَه اِلیٰ اَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ» «صحيح بخاری۔کتاب الجنائز۔ باب قول النبیﷺيعذب المیت ببعض بکاء اهله عليه۔ صحيح مسلم۔ کتاب الجنائز۔ باب البکاء علی الميت۰ سنن النسائی۔کتاب الجنائز۔باب الامر بالاحتساب والصبر عند نزول المصيبة»