سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(585) اعمال عبادت پر اجرت و عوض لینے کا مسئلہ

  • 18192
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 959

سوال

(585) اعمال عبادت پر اجرت و عوض لینے کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی اپنی فوت شدہ بیوی کی طرف سے ایک آدمی کو حج کے لیے بھیجنا چاہتا ہے، مگر یہ نائب آدمی شیعہ ہے، جبکہ وہ فوت ہونے والی سنی تھی۔ کیا متوفیہ کو پورا ثواب مل جائے گا، جیسے کہ اگر وہ اپنی زندگی میں خود کرتی؟ اور ایسے نائب کا کیا ثواب ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس متوفیہ کی طرف سے نیابت حج کے لیے کسی کو بھیجنا بالکل جائز اور صحیح ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، باب من مات و عليه نذر:

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ فوت ہو گئی ہے۔ تو آپ نے پوچھا: اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا یا نہیں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: تو اس کی طرف سے حج کر، اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا حق ادا کیا جائے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الایمان والنذور،باب من مات وعلیہ نذر،حدیث:6699۔)

علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح میں یہ باب (مسائل) ذکر کیے ہیں کہ "مرد عورت کی طرف سے حج کرے۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میری والدہ نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی، مگر حج کرنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گئی ہے، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا: کیوں نہیں، اس کی طرف سے حج کر۔ بھلا اگر والدہ پر قرضہ ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی یا نہیں؟اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا (قرض) ادا کر، اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب جزاء الصید،باب الحج والنذور عن االمیت،والرجل یحج عن المراۃ،حدیث:1852۔) امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ آپ کے لفظ " اقضو" (ادائیگی کر) مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (شرح صحیح بخاری) میں لکھتے ہیں: ’’اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ مرد عورت کی طرف سے یا کوئی عورت مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے۔ صرف ایک حسن بن صالح کا اختلاف ذکر کیا گیا ہے۔‘‘ (فتح الباری:65/4،حدیث:1852،طبع دار النشر الاسلامیۃ،لاھور۔)

اور یہ مسئلہ کہ کوئی شیعہ، کسی سنی (مرد و عورت) کی طرف سے حج بدل کرے تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس نائب میں ایک شرط مفقود ہے، جو حج کے لیے بڑی اہم ہے یعنی "عادل ہونا"۔

علامہ ابن حجر ہیثمی نے "فتاوی کبریٰ" میں لکھا ہے کہ "ولی پر واجب یہ ہے کہ جس آدمی کو خرچ دے کر روانہ کیا جا رہا ہو وہ عادل ہو، معتمد قول یہی ہے کیونکہ یہ نائب دوسرے کی طرف سے عمل کرتا ہے۔ اور جو دوسرے کی طرف سے کچھ کر رہا ہو، اسے احتیاط لازم ہے، اور جو ناقابل اعتماد ہو اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ میت کی طرف سے حج کرے گا خواہ بظاہر اس کے عمل درست ہی ہوں۔ کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور نیت دل کا عمل ہے جس سے آگاہی نہیں ہو سکتی۔" علامہ صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں: "اس سے معلوم ہوا کہ اس میں کوئی فرق نہیں، جس عمل کے لیے کسی کو اجرت یا عوضانہ دیا جا رہا ہے وہ فرض حج ادا کرے یا نفل، یا اسی طرح اس کا بچہ ہونا بھی درست نہیں۔ کیونکہ یہ عمل اصل میں خواہ نفل ہی سہی مگر وصیت کے بعد واجب الادا ہو گیا ہے، اور جس کی ادائیگی واجب ہو وہ کسی فاسق کے کرنے سے ادا نہیں ہو گا، کیونکہ ایسا آدمی امین نہیں، کیونکہ ان کا تعلق نیت سے ہوتا ہے، اور نیت سے کوئی آگاہ نہیں ہو سکتا۔" جب وصی آدمی کوئی ممنوع تصرف نہیں کر سکتا، تو دوسرے امور وسائل میں اس کی ممانعت اور زیادہ اولیٰ ہو گی۔ اور متوفیہ کو اس حج کا ثواب ملنا، تو ظاہر نصوص سے ثابت ہے کہ اسے ان شاءاللہ پورا اجر ملے گا، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے فرمایا تھا: ’’اپنے باپ کی طرف سے حج کر۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب المناک،باب الرجل یحج عن غیرہ،حدیث:1810وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب ماجاءفی الحج عن الشیخ الکبیر والمیت،حدیث:930۔) یا ایک عورت سے فرمایا تھا: ’’اپنی والدہ کی طرف سے حج کر۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب جزاءالصید،باب الحج والنذور عن المیت،حدیث:1852وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب ماجاءفی الحج عن الشیخ الکبیر والمیت،حدیث:929۔) اس میں یہ بیان ہے کہ اس کا یہ حج میت ہی کی طرف سے ہو گا، اور اس کا ثواب اس میت کے لیے ہو گا۔

ان نصوص کی روشنی میں امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "کتاب الروح" میں ان لوگوں کی تردید کی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ جس کی طرف سے حج کیا گیا ہو، اس کو صرف رقم خرچ کرنے کا ثواب ملے گا، اور جو نائب ہو کر حج کر رہا ہے اسے حج  کا ثواب ملے گا، خواہ یہ نفل ہی ہو۔ اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے مسائل امام احمد میں ایک روایت ایسے ہی نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ "میں نے امام احمد سے سنا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: میں اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنا چاہتا ہوں، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا مجھے بھی حج کا ثواب ملے گا؟ کہا: ہاں، تو اس کی طرف سے قرض ادا کرنے والا ہو گا۔"

مگر ظاہر یہ ہے کہ نیابت میں حج کرنے والے کو بھی پورے حج کا ثواب ملتا ہے، جیسے کہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من حج عن ميت ، فللذي حج عنه مثل أجره ، ومن فطر صائمًا فله مثل أجره ، ومن دعا إلى خير فله مثل فاعله)

’’جو کوئی کسی میت کی طرف سے حج کرے، تو حج کرنے والے کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا کروانے والے کا ہے۔ اور جو کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے تو افطار کرانے والے کو اتنا ہی ثواب ہے جتنا کہ روزے دار کا ہے۔ اور جو کسی خیر کے کام کی دعوت دے تو اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا کہ اس خیر کے کرنے والے کا ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی:69/6،حدیث:5818۔)

اعمال عبادت پر عوض لینا دینا:

اور میت کی طرف سے اجرت لے کر حج کرنے کے بارے فتاویٰ کبریٰ لابن حجر (2:96۔97) میں یوں ہے کہ ’’عوض و بدل ہر حج وغیرہ کرنے کا باعث اگر صرف مال ہی ہو، کہ اگر یہ نہ ہوتا تو یہ حج نہ کرتا، تو ایسے آدمی کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے، ورنہ اس (حج کرنے والے) کے لیے اتنا ہی ثواب ہے جتنا کہ اس نے آخرت کی نیت ہے۔‘‘ اختیارات شیخ الاسلام ابن تیمیہ میں یوں ہے: "مستحب یہ ہے کہ دوسرے کی طرف سے حج کرنے والا عوض اور بدل لے، اس نیت سے کہ حج کر سکے، نہ اس نیت سے کہ اسے عوض اور بدل ملے۔ جس شخص کی نیت ہو کہ وہ مشاعر حج دیکھ کر میت کو اجروثواب پہنچانا چاہتا ہے تو وہ حج کرنے کے لیے عوضانہ لے لے۔ اور یہی حکم ہے ان تمام روزینوں کا جو کسی صالح عمل پر ملتے ہیں۔ اور وہ شخص جس کی اصل نیت دین ہو مگر دنیا اس کے لیے ایک وسیلہ ہو، اور وہ شخص جس کی اصل نیت دنیا ہو مگر دین کو اس کے لیے وسیلہ بنایا ہو، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسری قسم کے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

اور یہ مسئلہ کہ ایسے اعمال جن کا عامل ان اعمال کے ذریعے سے اللہ کا مقرب بنتا ہے، کیا یہ بلا نیت تقرب و عبادت کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ تو جو حضرات کہتے ہیں کہ بلا نیت تقرب نہیں کیے جا سکتے، ان کے نزدیک ان پر عوض لینا دینا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ عوضانے کی وجہ سے یہ عبادت نہ رہیں گے۔ اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ وہی اعمال قبول فرماتا ہے جن میں اس کی رضامندی کی نیت کی گئی ہو۔ اور جو حضرات ان پر عوض و بدل لینا دینا جائز سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اعمال بلا نیت تقرب و عبادت بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ اس میں عمل کروانے والے کا نفع اور فائدہ ہے اس لیے ان پر عوضانہ لیا دیا جا سکتا ہے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 412

محدث فتویٰ

تبصرے