سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(566) طواف افاضہ سے پہلے ایام حیض شروع ہونا

  • 18173
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 897

سوال

(566) طواف افاضہ سے پہلے ایام حیض شروع ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون کو طواف افاضہ سے پہلے ایام شروع ہو گئے، اور پھر پاک نہ ہو سکی حتیٰ کہ اس کے قافلے والوں کے کوچ کا وقت آ گیا، اور اس کے لیے ان سے پیچھے رہنا بھی ممکن نہیں کہ پاک ہونے کے بعد طواف کر سکے۔ تو کیا اس کی یہ صورت "شرعی ضرورت" کہلائے گی یا نہیں اور اگر اس صورت میں اسے طواف کی اجازت ہے تو کیا اسے دم دینا واجب ہو گا یا نہیں ؟ اور کیا اس حالت میں طواف سے پہلے اسے غسل کرنا چاہئے یا نہیں؟ اگر عورت قافلے والوں سے علیحدہ نہ رہ سکتی ہو تو کیا اس حالت میں اس پر حج واجب ہے یا نہیں اور اگر واجب نہ ہو تو کیا اس کے لیے طواف کرنا مستحب ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں، اللہ آپ کو اجر جزیل سے نوازے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ کہ طواف صحیح ہونے کے لیے طہارت شرط ہے یا نہیں، اس بارے میں علمائے کرام کے دو مشہور قول ہیں:

(1)۔۔۔ طواف کے لیے طہارت شرط ہے جیسے کہ امام مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ سے ایک روایت ہے۔

(2) ۔۔ ۔ شرط نہیں ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اگر کوئی بحالت جنابت، حدث یا نجاست اٹھائے ہونے کی حالت میں طواف کر لے تو اس کا طواف کافی ہو جائے گا، اور اسے ایک دم دینا ہو گا۔ لیکن اصحاب احمد کا اختلاف ہے کہ آیا یہ رخصت صرف معذور کے لیے ہے مثلا کوئی اپنا جنبی ہونا بھول گیا ہو (یا دوسرے کے لیے بھی ہے؟) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر بحالت حیض یا جنابت طواف کیا ہو تو اسے ایک اونٹنی دینی ہو گی۔

اور یہ عورت جسے بحالت حیض ہی طواف کرنا پڑے تو اس کا عذر اولیٰ تر ہے۔ کیونکہ حج ان (حائضہ یا جنبی) پر واجب ہے۔ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ حائضہ سے حج ساقط ہو جاتا ہے۔ اور نہ ہی شریعت میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ کسی واجب کے سلسلے میں اگر کئی عجز عارض آ جائے تو اس سے وہ واجب ساقط ہو جائے۔ مثلا اگر کوئی شخص نماز کے لیے لازمی طہارت سے عاجز ہو (تو کسی نے نہیں کہا کہ اس سے نماز ساقط ہے)۔

سو یہ حائضہ عورت اگر مکہ میں رہ سکتی ہو تو اس پر واجب ہے کہ رک جائے حتیٰ کہ پاک ہو اور پھر طواف کر کے روانہ ہو۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اسے دوبارہ آنا واجب ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے لیے حج کا سفر دوبار واجب کیا گیا ہے جو بلاشبہ خلاف شریعت ہے (شریعت نے حج ایک ہی بار واجب کیا ہے)۔

اور جب یہ عورت اپنے قافلے کے ساتھ روانہ ہونے کے لیے مجبور ہے، اور حیض بھی اپنی عادت کے مطابق آیا ہے، اور ممکن نہیں کہ یہ کسی طرح پاکیزگی میں طواف کر سکے، تو اصول شریعت اس بات پر مبنی ہیں کہ عبادت کی جن شروط کے بجا لانے سے بندہ عاجز ہو، وہ اس سے ساقط ہو جاتی ہیں ۔ مثلا اگر کوئی نمازی مستر عورۃ کے سلسلے میں یا استقبال قبلہ سے معذور ہو یا نجاست سے تحفظ ناممکن ہو (تو اس سے یہ شرائط ساقط ہیں)۔ اسی طرح اگر کوئی از خود طواف سے عاجز ہو یا سوار ہو کر بھی نہ کر سکتا ہو تو اسے اٹھا کر طواف کرایا جائے گا۔

اور جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کے لیے بلا طہارت طواف جائز ہے، خواہ وہ غیر معذور بھی ہو، جیسے کہ اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں، تو ان کا قول اس کے عذر کے پیش بہت اولی اور لائق قبول ہے اور رہا غسل کرنا، اگر وہ کر لے تو بہت بہتر ہے، جیسے کہ کوئی حیض یا نفاس والی احرام کے لیے کرتی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 404

محدث فتویٰ

تبصرے