سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(505) حج كرنا اور عمرہ چھوڑ دینا

  • 18112
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1079

سوال

(505) حج كرنا اور عمرہ چھوڑ دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص حج کرے اور عمرہ نہ کرے، بلکہ عمرہ چھوڑ دے، بھول کر یا عمدا، تو کیا اس سے عمرہ ساقط ہو جائے گا یا نہیں؟ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں کیا منقول ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدللہ رب العالمین، عمرہ واجب ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔ مذہب شافعی میں یہ دو قول ہیں تو امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں ہیں، اور ان کے اصحاب کے ہاں مشہور یہ ہے کہ عمرہ واجب ہے۔ تاہم اکثر کا قول یہ ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔ جیسے کہ امام مالک رحمہ اللہ ہیں اور امام  ابوحنیفہ رحمہ اللہ۔ بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہ دو قول مروی ہیں۔

اور ظاہر یہ ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے۔ اور جس شخص نے حج کر لیا ہو اور عمرہ نہ کیا ہو، اس پر کچھ نہیں ہے، خواہ وہ اسے جان بوجھ کر چھوڑ دے یا بھول کر۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں حج بیت للہ کو فرض کیا ہے اور فرمایا ہے:

﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا ...﴿٩٧﴾...سورة آل عمران

’’اور لوگوں کے ذمے ہے کہ اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کریں، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔‘‘

اور قرآن کریم میں وارد لفظ "حج" عمرے کو شامل نہیں ہے، بلکہ اس کا حج کے ساتھ اس طرح سے ذکر فرمایا ہے کہ جب بندے نے ان کا ارادہ کر لیا ہو تو انہیں پورا کرے۔ فرمایا:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ...﴿١٩٦﴾... سورةالبقرة

’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو اللہ کے لیے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَمَن حَجَّ البَيتَ أَوِ اعتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِما ... ﴿١٥٨﴾... سورة البقرة

’’جو بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ، تو اس پر صفا اور مروہ کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

مقصد یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اتمام (پورا کرنے) کا حکم دیا تو فرمایا کہ حج و عمرہ کو پورا کرو۔ اور یہ آیت کریمہ باتفاق علماء حدیبیہ کے سال یعنی ہجرت کے چھٹے سال اور آل عمران کی آیت (وجوب حج کے سلسلہ میں) نویں یا دسویں سال نازل ہوئی تھی، اور اسی موقعہ پر حج فرض کیا گیا تھا۔

صحیح تر قول یہی ہے کہ حج بعد میں فرض ہوا ہے۔ اور جو کہتے ہیں کہ یہ چھٹے سال فرض ہوا تھا، ان کا استدلال اسی آیت کریمہ سے ہے جس میں اتمام کا حکم ہے۔ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ دراصل اس میں حکم ہے کہ جو شخص یہ عمل شروع کر چکا ہو وہ اسے پورا  کرے۔ اس میں حج و عمرہ کے شروع کرنے کا حکم نہیں ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے جب حدیبیہ کا عمرہ کیا، تو اس وقت تک حج یا عمرہ فرض نہیں کیا گیا تھا، پھر جب مشرکین نے آپ کو روک دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں حج و عمرہ کے مکمل کرنے کا حکم دیا گیا اور محصر کے احکام بتائے گئے کہ جسے بیت اللہ سے روک دیا گیا ہو وہ اسے پورا کرے۔ اور اسی لیے تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ حج و عمرہ جب شروع کر دیا گیا ہو تو انہیں پورا کرنا لازم ہے۔ ان کے مقابلے میں روزہ، نماز اور اعتکاف کے بارے میں اختلاف ہے۔

اور عمرہ کے اعمال حج ہی کی طرح کے ہیں یعنی احرام، طواف، سعی اور پھر حلال ہو جانا، اور یہی اعمال حج میں بھی ہوتے ہیں، اور حج اللہ نے ایک بار فرض فرمایا ہے، دوبار نہیں۔ بلکہ کوئی بھی فریضہ ایسا نہیں جو دوبار فرض کیا گیا ہو۔ اور طواف وداع حج کا حصہ نہیں ہے۔ یہ (طواف وداع) اسی بندے کے لیے ہے، جو مکہ سے روانہ ہونا چاہتا ہو۔ لہذا جو مکہ میں مقیم ہو اس پر یہ طواف نہیں ہے۔ اور حاجیوں میں سے بھی ہر ایک پر فرض نہیں ہے بلکہ حائضہ عورت سے یہ ساقط ہے۔ اگر وہ یہ نہ کر سکے تو قربانی اس سے کفایت کر جاتی ہے اور اس کے ترک سے حج باطل نہیں ہوتا ہے، بخلاف اس کے جو طواف فرض ہے یا وقوف عرفات ہے (اس کے بغیر حج نہیں ہے) اور سعی صفا و مروہ ایک بار ہے، یوم النحر میں رمی جمرات ایک ایک بار ہے اور حلق و تقصیر بھی ایک ہی بار ہے۔ تو اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ عمرے میں حج والے اعمال ہیں، اور اعمال حج اللہ نے ایک بار فرض کیے ہیں نہ کہ دو بار، تو عمرہ فرض نہیں ہے۔

اس موضوع پر جو ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ’’عمرہ ایک چھوٹا حج ہے ۔۔‘‘ (صحیح ابن حبان:501/14،حدیث:6559۔المستدرک للحاکم:1/552،حدیث:1447وسنن الدارقطنی:285/2حدیث:222۔) اس سے بعض علمائے کرام نے وجوب عمرہ کی دلیل لینے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں دو حجوں کا بیان ہے یعنی اکبر اور اصغر کا جیسے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے:﴿ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ﴾(التوبہ: 9/3) بخلاف عمرے کے کہ اس کا کوئی وقت معین نہیں ہے، اسے سال کے سب مہینوں میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ (ایک اور انداز سے بھی غور کیجیے کہ) عمرہ اور حج آپس میں ایسے ہیں جیسے کہ وضو اور غسل۔ غسل جنابت والے کے صرف غسل ہی کافی ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک اسے وضو کرنا واجب نہیں ہے۔ تو اسی طرح عمرہ اور حج ہے، اور یہ ایک ہی طرح کی دو عبادتیں ہیں، ایک بڑی ہے اور دوسری چھوٹی۔ جب بڑی ادا کر دی گئی تو چھوٹی کا ادا کرنا واجب نہیں ہو گا۔ تاہم چھوٹی کا ادا کرنا افضل و اکمل ضرور ہے جیسے کہ غسل کے ساتھ وضو کرنا افضل و اکمل ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے بھی ایسے ہی کیا تھا، بلکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے حج کو تمتع بنا لیں اور فرمایا: ’’عمرہ حج میں داخل ہو چکا، قیامت تک کے لیے ۔۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجة النبی،حدیث:1218وسنن ابی داود،کتاب المناسک فی افراد الحج،حدیث:1790سنن الترمذی،کتاب الحج،باب العمرۃاواحبة ھی ام لا،حدیث:932)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 08

تبصرے