السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں میری ایک آدمی کے ساتھ بلکہ مولانا صاحب کے ساتھ اس بات پر گفتگو شروع ہو گئی ہے کہ کیا مردہ کو دفن کرنے کے بعد اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں پھر پاؤں کے پاس اس کی آخری آیتیں پڑھنی جائز ہیں کہ نہیں ؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ مشکوٰۃ اول باب دفن المیت۔ فصل ثالث میں یہ حدیث آتی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جب تم سے کوئی آدمی فوت ہو جائے تو اس کو نہ روکو اور اس کو قبر کی طرف جلدی لے جائو اور اس کے سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتداء کی آیات اورپائوں کے پاس آخری آیات پڑھی جائیں ۔ روایت کیا اس کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور کہا درست بات ہے کہ یہ عبداللہ بن عمر پر موقوف ہے۔
تو اس کے بارہ میں علماء کرام کیا فرماتے ہیں کیا جائز ہے یا کہ نہیں یا کوئی ایسی حدیث آتی ہے جس میں آپﷺ نے میت پر قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہو براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب دے کر مشکور فرمائیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ اگر یہ پڑھنا جائز نہیں تو اس سے کس طرح بات کی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) قبر پر قرآن مجید پڑھنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں جو روایات اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہیں ان سے کوئی ایک بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی آپ نے مشکوٰۃ شریف سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس کے متعلق محدث وقت شیخ البانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
«وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِیُ فِی الْکَبِيْرِ (۲۰۸/۳/۲) وَالْخَلاَّلُ فِی کِتَابِ الْقِرَائَ ةِ عِنْدَ الْقُبُوْرِ (ق ۲۵/۲) بِإِسْنَادٍ ضَعِيْفٍ جِدًّا فِيْهِ يَحْيٰی بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الضَّحَاکِ الْبَابَلْتِیْ وَهُوَ ضَعِيْفٌ عَنْ أَيُّوْبَ بْنِ نَهِيْکٍ ضَعَّفَه أَبُوْ حَاتِمٍ وَغَيْرُه وَقَالَ الْاَزْدِیُ مَتْرُوْکٌ ۔ وَالْمَوْقُوْفُ لاَ يَصِحُّ إِسْنَادُه فِيْهِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْعَلاَئِ بْنِ اللجلاَجِ وَهُوَ مَجْهُوْلٌ»
’’روایت کیا اس کو طبرانی نے کبیر میں اور خلال نے کتاب القراء ۃ القبور میں بہت زیادہ ضعیف سند کے ساتھ اس میں یحییٰ بن عبداللہ بن ضحاک ہے اور وہ ضعیف ہے ایوب بن نہیک سے ضعیف کہا اس کو ابو حاتم نے اور اس کے غیر نے اور کہا ازدی نے وہ متروک ہے اور موقوف کی سند صحیح نہیں اس میں عبدالرحمن بن علاء بن لجلاج ہے اوروہ مجہول ہے‘‘حاشیہ (مشکوۃ للالبانی کتاب الجنائزص538)
تو یہ روایت مرفوعاً بھی ضعیف ہے اور موقوفاً بھی ضعیف ہے لہٰذا اس سے کسی مسئلہ پر احتجاج واستدلال درست نہیں جبکہ موقوف اگر صحیح ہو تو بھی اس سے استدلال واحتجاج برائے امر دینی درست نہیں والتفصیل فی موضعہ ۔
(2) اس مسئلہ پر بات چیت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی جن حضرات سے گفتگو ہو رہی ہے وہ اس مسئلہ میں مدعی ہیں اور دعویٰ کا اثبات بذمہ مدعی ہوتا ہے اس لیے آپ ان سے دلائل کا مطالبہ کریں جو دلیل وہ پیش فرمائیں اگر صحیح ہو اور اس سے ان کا دعویٰ ومطلوب بھی ثابت ہو رہا ہو تو آپ اس کو قبول فرمائیں اور اپنا موقف چھوڑ دیں اور اگر ان کے پیش کردہ دلائل صحیح نہ ہوں یا ان سے ان کا دعویٰ ومطلوب ثابت نہ ہوتا ہو تو ان کی خیر خواہی کے پیش نظر احسن طریقہ سے اور نرم لہجہ میں ان کے دلائل کی کمزوری یا مطلوب پر دلالت نہ کرنے کو ان پر واضح فرما دیں کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے «اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ» (الحدیث) ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘(مسلم۔کتاب الایمان،باب بیان الدین النصیحة) نیز جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی (کئی چیزوں پر بیعت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں) ’’وَالنُّصْحَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ ’’اور ہر مسلمان کی خیر خواہی‘‘ اس لیے آپ اپنی اور دوسروں کی خیر خواہی کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں اور بات کرتے وقت مخاطب کے ادب واحترام کو ضرور بالضرور ملحوظ رکھیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب