سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) مباشرت کرنےوالے کا میت کو لحد میں اتارنے کا حکم

  • 1807
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2113

سوال

(351) مباشرت کرنےوالے کا میت کو لحد میں اتارنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحیح بخاری کتاب الجنائز ’’باب من یدخل قبر المرأة‘‘ میں وارد حدیث میں :

(1) البانی حفظہ اللہ تعالیٰ کا مؤقف ’’احکام الجنائز‘‘ میں بظاہر حدیث کے مطابق ہے کہ جس نے رات اپنے اہل سے مقاربت کی ہے وہ اس کو قبر میں نہیں اتار سکتا۔ اس کی تفصیل کیا ہے ؟

(2) اس میں حکمت کیا ہے ؟

(3) کیا حدیث اپنے ظاہر پر محمول کی جائے گی ؟

(4) بعض روایات کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دفن کے لیے آگے بڑھ رہے تھے لیکن یہ سن کر رک گئے کیا رسول اللہﷺ کا کوئی مخصوص اشارہ تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 (1) امام بخاری  رحمہ اللہ الباری صحیح میں باب منعقد فرماتے ہیں ’’ بَابٌ مَنْ یَدْخُلُ قَبْرَ الْمَرْأَة‘‘  پھر انس رضی اللہ عنہ کی حدیث درج فرماتے ہیں :

«قَالَ: شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُوْلِ اﷲِﷺوَرَسُوْلُ اﷲِﷺجَالِسٌ عَلَی الْقَبْرِ ، فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ ، فَقَالَ : هَلْ فِيْکُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفِ اللَّيْلَةَ ؟ فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ : أَنَا ۔ قَالَ : فَانْزِلْ فِیْ قَبْرِهَا ۔ فَنَزَلَ فِیْ قَبْرِهَا ، فَقَبَرَهَا ۔ قَالَ ابْنُ مُبَارَک: قَالَ فُلَيْحٌ : أَرَاهُ يَعْنِی الذَّنْبَ ۔ قَالَ أَبُوْ عَبْدِ اﷲِ : لِيَقْتَرِفُوْا أَیْ لِيَکْتَسِبُوْا»

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبیﷺ کی بیٹی کوحاضر ہوئے اور رسول اللہﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے پس میں نے دیکھا آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کیا ہے کوئی تم میں سے جس نے آج رات مقارفت نہیں کی تو ابو طلحہ نے عرض کیا میں نے تو آپﷺ نے فرمایا کہ قبر میں اتر۔ پس وہ قبر میں اترا اور آپﷺ کی بیٹی کو دفن کیا کہا ابن مبارک نے کہا فلیح نے میں سمجھتا ہوں آپﷺ گناہ مراد لے رہے تھے کہا ابو عبداللہ نے لیقترفوا  کا معنی ہے تاکہ وہ کمائیں‘‘

بعض روایات میں وارد الفاظ «لاَ يَدْخُلُ الْقَبْرَ أَحَدٌ قَارَفَ أَهْلَهُ الْبَارِحَةَ»  ’’نہ داخل ہو قبر میں کوئی جس نے اپنے اہل سے گذشتہ رات مقارفت کی ہو‘‘اس حدیث میں مقارفت سے بیوی یا لونڈی کے ساتھ مجامعت مراد ہونے کا قرینہ نہیں کیونکہ اس کی بنیاد ابن حبیب کا قول:

«اَلسِّرُّ فِی إِيْثَارِ أَبِیْ طَلْحَةَ عَلَی عُثْمَانَ أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ قَدْ جَامَعَ بَعْضَ جَوَارِيْهِ فِی تِلْکَ اللَّيْلَةِ فَتَلَطَّفَ ﷺ فِیْ مَنْعِهِ مِنَ النُّزُوْلِ فِیْ قَبْرِ زَوْجَتِهِ بِغَيْرِ تَصْرِيْحٍ»

’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینے میں راز یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی کسی لونڈی سے اس رات جماع کیا تھا تو نبیﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی بیوی کی قبر میں اترنے سے منع کرنے میں نرمی کی بغیر تصریح کے‘‘ مگر اس رات عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک مملوکہ لونڈی کے ساتھ مجامعت کا ثبوت؟ پھر لفظ ’’اہل‘‘ کو بیوی یا لونڈی کے ساتھ مخصوص کرنے کی دلیل ؟ تو مقصد یہ ہوا کہ میت کو قبر میں وہ اتارے جس نے اپنے اہل وعیال کے سلسلہ میں اس رات کوئی تقصیر وکوتاہی نہ کی ہو۔

(2) بظاہر حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ میت کو قبر میں اتارنے سے قبل قریب زمانہ میں انسان کا ارتکاب تقصیر وکوتاہی سے مبرا ہونا نیک فال ہے باقی حکمت معلوم نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں اصل وبنیادی چیز حکم ہے اور وہ معلوم ہے دیکھئے وضوء کر لینے کے بعد ہوا خارج ہو تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے اب سارے اعضائے وضوء دھوئے جائیں گے مگر جہاں سے ہوا خارج ہوئی اس کو نہیں دھویا جاتا اس میں کیا حکمت ہے ؟ غور فرمائیں؟

(3) قراف ومقارفت دونوں معنوں میں مشترک ہے جو معنی حدیث میں مراد ہے امام بخاری نے اس کی وضاحت فرما دی ہے مشترک کے تمام معانی ظاہر ہی ہوتے ہیں صرف اس کے معانی متعددہ حقیقیہ سے کسی ایک معنی کی تعیین کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے قراف ومقارفت جماع کے معانی میں اس وقت آتے ہیں جب ان کا مفعول بہٖ مرأۃ  یا امرأۃ  یا اس سے ملتا جلتا کوئی لفظ ہو۔

(4) یہ چیز بعض روایات میں آئی اس روایت کو بخاری نے التاریخ الأوسط میں اور حاکم نے مستدرک میں ذکر کیا ہے جو بعض اوہام پر مشتمل ہے جس سے اس کی استنادی حیثیت واضح ہو رہی ہے پھر دیکھیں رسول اللہﷺ  بذات خود اس موقع پر موجود تھے مگر خود قبر میں نہیں اترے نہ ہی اپنی بیٹی کو قبر میں اتارا آیا یہ بھی تھا کوئی مخصوص اشارہ ؟

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

جنازے کے مسائل ج1ص 259

محدث فتویٰ

تبصرے