السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں جب تیرہ سال کی نوعمر لڑکی تھی تو میں نے رمضان کے روزے رکھے، ان میں سے چار دن بسبب ایام مخصوصہ افطار کیا، مگر میں نے حیا سے کسی کو بتایا نہیں اور ان دنوں کی قضا نہیں دی ہے، اور اب اس بات کو آٹھ سال ہونے کو آئے ہیں۔ اب میں اس بارے میں کیا کروں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے اس قدر طویل مدت تک قضا نہ دے کر بہت بڑی خطا کی ہے، اور ماہانہ ایام (حیض) ایسی چیز ہے جو اللہ عزوجل نے حوا کی بیٹیوں پر مقدر فرمایا ہوا ہے۔ انسان کو اپنے دین کے مسائل دریافت کرنے میں حیا کو رکاوٹ نہیں بنانا چاہئے۔ آپ پر واجب ہے کہ اولین فرصت میں اپنے ان چار دنوں کے قضا روزے رکھو، اور اس قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک یا ۔۔ مسکینوں کو کھانا بھی کھلاؤ، وہ طعام جو آپ کے علاقے میں عام اور معروف ہو، اس کی مقدار دو صاع ہونی چاہئے۔ ([1])
[1] محسوس ایسے ہوتا ہے کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ نے اس سوال کے جواب میں روزوں کی قضا کے ساتھ جو فدیہ کہا ہے وہ سابقہ مدت تک غفلت کے ازالہ کے لیے ہے یا شاید ائمہ حنابلہ کا مذہب ہے کہ اگر ایک سال سے تاخیر ہو جائے تو قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی دے۔ واللہ اعلم۔ ورنہ اصل قضا دینا یہ ہے، جیسے کہ آگے ایک فتویٰ میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ائمہ احناف کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے صرف قضاء دینا فرمایا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب