السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت پر نوحہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت پر نوحہ کرنا حرام ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی میت پر بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے اونچی اونچی آواز سے روئے، ہائے وائے پکارے، کپڑے پھاڑے، رخسارے پیٹے، بال نوچے، منہ کالا کرے یا نوچے وغیرہ۔ یہ سب اعمال نوحہ کہلاتے ہیں، جن میں اللہ کی تقدیر اور اس کے فیصلوں پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ صحیحین میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ )
’’جو اپنے رخسارے پیٹے یا دامن پھاڑے اور جاہلیت کی سی آواز بلند کرے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب لیس منا من شق الجیوب، حدیث: 1294 و صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم ضرب الخدود و شق الجیوب ۔۔۔ حدیث: 285۔ صحیح مسلم میں لطم الخدود، کی جگہ ضرب الخدود ہے اور بخاری کی ایک روایت میں بھی ضرب الخدود ہے، حدیث: 1298)
اور یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صالقہ، حالقہ اور شقہ سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے۔
صالقہ سے مراد وہ عورت ہے جو کسی مصیبت میں اپنی آواز بلند کرے۔
حالقہ وہ ہے جو مصیبت میں اپنے بال منڈوا دے۔ اور
شاقہ وہ ہے جو مصیبت میں اپنے کپڑے پھاڑے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور اسے غور سے سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔" ([1])
اے مسلمان بہن! تم پر واجب ہے کہ کسی مصیبت میں ان حرام کاموں سے دور رہو، صبر سے کام لیا کرو، اور اللہ سے اجروثواب کے امیداوار بنو، تاکہ یہ مصیبت تمہارے لیے گناہوں کا کفارہ بن جائے اور تمہارے اجروثواب میں اضافے کا باعث ہو۔ ہاں اس قدر جائز ہے کہ اگر آواز بلند کیے بغیر رونا آئے تو کوئی حرج نہیں، اور کوئی ایسے حرام کام نہ کیے جائیں جن میں اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہو۔ اور اللہ ہی مدد دینے والا ہے۔
[1] یہ روایت صحیح مسلم میں مجھے نہیں ملی، البتہ سنن ابی داود، میں موجود ہے۔ دیکھیے سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب فی النوح، حدیث: 3128
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب