سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(379) مزاروں اور اولیاء کی قبروں کی زیارت

  • 17986
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1807

سوال

(379) مزاروں اور اولیاء کی قبروں کی زیارت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ مزاروں اور اولیاء کی قبروں پر جاتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ضروری ہے کہ ان لوگوں کو زیارت قبور کے شرعی آداب سکھائے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ارشاد فرماتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یوں کہا کریں:

السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ، وَالْمُسْلِمِينَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُونَ ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ

’’سلامتی ہو تم پر اے گھر والو! مومنو اور مسلمانو! اور ہم بھی ان شاءاللہ تمہارے ساتھ آ ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے آرام و راحت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور ولدعاء لاھلھا، حدیث: 975 و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب فیما یقال اذا دخل المقابر، حدیث: 1547 صحیح مسند احمد بن حنبل: 353/5، حدیث: 23035)

ایک دوسری روایت میں یوں ہے:

السَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤمِنينَ ، وأَتَاكُمْ ما تُوعَدُونَ ، غَداً مُؤَجَّلُونَ ، وإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَهْلِ بَقِيعِ الغَرْقَدِ

’’سلامتی ہو تم پر اے مومن قوم کے گھروں والو! تمہیں تو وہ حاصل ہو چکا جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، اور آنے والے کل تک کے لیے مہلت دیے گئے ہو، اور ہم بھی ان شاءاللہ تمہارے ساتھ آ ملنے والے ہیں، اے اللہ بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور ولدعاء لاھلھا، حدیث: 974 و مسند احمد بن حنبل: 180/6، حدیث: 25510)

اور ایک روایت میں یوں ہے:

يرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين يغفر الله لنا و لكم، انتم سلفنا و نحن بالاثر

’’اللہ رحم فرمائے ان پر جو ہم میں سے آگے گئے اور جو پیچھے رہ گئے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں سب کو بخش دے۔ تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے ہیں۔‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر، حدیث: 1053 حدیث: حسن۔)

یہ اور اس معنی کی دوسری احادیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ زیارت قبور کا شرعی طریقہ کیا ہے، اور مقصد کیا ہے۔ یعنی ان اموات کے لیے دعا کی جائے اور زیارت کرنے والا خود اپنی موت اور آخرت کو یاد کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قبروں کی زیارت کیا کرو، بلاشبہ یہ تمہیں آخرت یاد دلاتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی ربہ فی زیارۃ قبر امہ، حدیث: 976 و سنن دارقطنی: 259/4، حدیث: 69 و سنن ترمذی، کتاب الجنائز، باب الرخصۃ فی زیارۃ القبور، حدیث: 1054 صحیح)

اور قبروں پر قبے، تعمیرات یا مسجدیں بنانا ۔۔۔ یہ جائز نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؛ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا

’’لعنت کرے اللہ تعالیٰ یہودونصاریٰ کو، جنہوں نے اپنے انبیاء ی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ فی البیعۃ، حدیث: 436، و کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبر، و صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور، حدیث: 530 و سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب فی ابناء علی القبر، حدیث: 3227)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ

’’کوئی تصویر نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا ڈالنا، اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دینا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب جعل القطیفۃ فی القبر، حدیث: 969 و سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب تسویۃ القبر، حدیث؛ 1049)

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے (پختہ بنانے)، ان پر بیٹھنے اور ان پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب النھی رن تجصیص القبر والبناء علیہ، حدیث: 970 و سنن ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراھیة تجصیص القبور، حدیث: 1052)

لہذا قبروں پر کوئی تعمیر، قبہ یا مسجد اور سجدہ گاہ بنانا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اسے پختہ بنانا یا اس پر بیٹھنا جائز ہے، اور اس کی بھی اجازت نہیں کہ اس پر چادریں چڑھائی جائیں۔ قبر محض ایک بالشت بھر اونچی ہونی چاہئے تاکہ نظر آئے کہ یہ قبر ہے تاکہ اس کی بے ادبی نہ ہو اور لوگ اس پر نہ چلیں۔ چنانچہ ہر صاحب علم پر لازم ہے کہ اپنے بھائیوں کو یہ مسائل بتائیں اور سکھائیں، علماء کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اللہ کی شریعت سکھائیں اور مومن ہمیشہ اہل علم سے علم حاصل کرتے ہیں۔ اور جو شخص قبرستان کی زیارت کے لیے آئے، صاحب علم پر لازم ہے کہ اسے سکھائے کہ قبرستان کی زیارت کا شرعی طریقہ یہ یہ ہے۔ اور قبر پر کوئی تعمیر کرنا، یا قبر والے سے سوال کرنا، یا قبر کی مٹی سے برکت حاصل کرنا، یا قبر کو چومنا یا اس کے پاس نماز پڑھنا، یہ سب دین میں نئے کام ہیں (بدعت ہیں)، قبر کے پاس نماز پڑھنا یا دعا یا قراءت قرآن کرنا بدعت ہے۔ بلکہ قبر سے برکت حاصل کرنا یا شفاعت چاہنا یا بیماری سے شفا کی دعا کرنا یہ شرک اکبر کی قسمیں ہیں۔

اگر کوئی یوں کہے: اے میرے آقا! اللہ کے ہاں میری شفاعت کر، یا میت کو پکارے کہ میری مدد کر یا میرے مریض کو شفا دے وغیرہ تو یہ اعمال قطعا جائز نہیں ہیں۔ کیونکہ میت کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین صورتوں کے: صدقہ جاریہ، یا علم جس سے نفع ہوتا ہو، یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔

لیکن اس سے شفا طلب کرنا یا دشمن کے خلاف نصرت چاہنا یا شفاعت، تو یہ شرک اکبر کے اعمال ہیں، جو میتوں سے حاصل نہیں کیے جا سکتے، بلکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے، اور اپنے لیے یوں کہے: اے اللہ مجھے شفا دے، مجھے عطا فرما، اے اللہ میرے حق میں اپنے نبی کی سفارش قبول فرما، اے اللہ میرے حق میں اپنے فرشتوں کی شفاعت قبول فرما، یا اہل ایمان کی شفاعت قبول کر، تو جائز ہے، کیونکہ اس انداز میں دعا اور سوال اللہ عزوجل سے ہے۔

مختصر یہ کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں اور ایک دوسرے کو شریعت کی باتیں سکھائیں، اور علماء کا بھی فریضہ ہے کہ اپنے عوام کو اللہ کی شریعت سے آگاہ کیا کریں، اور ان میں سے زیارت قبور کا شرعی طریقہ بہت اہم ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ قبروں پر کسی قسم کی تعمیر یا قبے بنانا یا مسجدیں بنانا یا قبر کے پاس نماز پڑھنا یا قرآن کی تلاوت کرنا وغیرہ یہ امور بدعت ہیں اور شرک اکبر کا وسیلہ ہیں۔ اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 320

محدث فتویٰ

تبصرے