السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے زیارت قبور کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی عورت کا کوئی قریبی عزیز فوت ہو جائے تو کیا وہ شرعی آداب کے ساتھ باپردہ جنازہ کے ساتھ جا سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور اہل علم کے مطابق عورت کے لیے زیارت قبور جائز ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں آئی ہیں۔ ایک میں انہوں نے اس عمل کو حرام کہا ہے، اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے جانے والیوں پر لعنت کی ہے۔" (سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجدا، حدیث: 320 ضعیف۔ سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور، حدیث: 2043) مگر یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے،بلکہ اس سے صحیح تر وہ روایت ہے جو امام احمد اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:
’’ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ ‘‘
’’یعنی آپ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے کہ جو بہت کثرت سے قبروں کی زیارت کےلیے جاتی ہیں۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل: 337/2 حدیث: 8430 اسنادہ حسن و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عن زیارۃ النساء القبور، حدیث: 1572 حسن)
اور لفظ زائرات اور زوارات میں بڑا فرق ہے (یعنی زائرات عمومی میں زیارت کرنے والی، اور زوارات سے مراد وہ ہے جو بہت زیادہ کثرت سے زیارت کو جائے)۔ زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ کثرت سے قبروں پر آنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت کبھی کبھار زیارت قبور کے لیے جائے تو اس کے لیے جائز ہے اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(1)دلیل عام: صحیح مسلم میں حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کے لیے جایا کرو، بلاشبہ اس سے آخرت یاد آتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی ربہ فی زیارۃ قبر امہ، حدیث: 977۔ سنن ترمذی، کتاب الجنائز، باب الرخصۃ فی زیارۃ القبور، حدیث: 1054۔ صحیح سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ القبور، حدیث: 3235 صحیح)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، اور اپنے ارد گرد اصحاب کو رلایا، پھر فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی کے اپنی ماں کے لیے مغفرت کی دعا کروں، تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے اللہ سے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت چاہی تو مجھے دے دی گئی۔ سو قبروں کی زیارت کے لیے جایا کرو، بلاشبہ اس سے موت یاد آتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب استئذان النبی ربہ فی زیارۃ قبر امہ، حدیث: 976 و سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ القبور، حدیث: 3234 صحیح۔ صحیح ابن حبان: 440/7، حدیث: 3169 صحیح۔) یہ ایک عام دلیل ہے۔
اس کے ساتھ ایک خاص دلیل بھی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جب قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہا کروں؟ (اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک عورت ہی ہیں) تو آپ نے ان سے فرمایا: یوں کہا کرو:
السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ، وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا ، وَالْمُسْتَأْخِرِينَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ
’’سلامتی ہو ان گھروں والوں پر، اہل ایمان اور مسلمانوں پر، اللہ رحم فرمائے ان پر جو آگے چلے گئے ہم میں سے اور تم میں سے، اور پیچھے رہنے والوں پر بھی، اور ہم بھی ان شاءاللہ بالضرور تمہارے ساتھ آ ملنے والے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، ما یقال عند دخول القبور، حدیث: 974 و سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الام بالستغفار للمومنین، حدیث: 2037 صحیح، صحیح ابن حبان: 16/45، حدیث: 7110 صحیح)
اور صحیحین میں آیا ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کی قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی اور نوحہ کر رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے۔" وہ بولی، دور ہو مجھ سے، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے۔’’ دراصل وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ پائی تھی۔ بعد میں جب اسے بتلایا گیا کہ یہ تو نبی علیہ السلام تھے، تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوئی، گویاکہ مر رہی ہو، اسی وجہ سے کہ اس نے آپ کو نامناسب جواب دیا تھا۔ وہ آئی اور اجازت مانگی، اسے وہاں کوئی دربان نظر نہ آیا، پھر وہ آپ سے ملی اور بولی: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو پہچان نہ پائی تھی، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’صبر ہمیشہ صدمے کی ابتدا میں ہوتا ہے۔‘‘
الغرض نبی علیہ السلام نے اس عورت پر اس کے نوحہ کرنے پر انکار فرمایا، اپنے بیٹے کی قبر پر آنے سے انکار نہیں فرمایا۔ اس سے امام قرطبی رحمہ اللہ نے لیا ہے کہ "نبی علیہ السلام نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبروں پر جاتی ہوں، کیونکہ اس میں اندیشہ ہے کہ وہ اس طرح اپنے شوہر کے حقوق میں قصور کریں، یا آتے جاتے میں بے پردگی کی مرتکب ہوں، یا شرعی محرمات کی مرتکب ہوں جو کبیرہ گناہ ہیں، مثلا نوحہ کرنا، منہ پر طمانچے مارنا اور ندبہ کرنا وغیرہ۔ اگر عورت ان افعال سے پرہیز کرے تو اسے زیارت قبور کی اجازت ہے، کیونکہ یہ بھی یاد آخرت کی اسی طرح محتاج ہے جیسے کہ مرد محتاج ہے۔ اور امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "یہی قول اس لائق ہے کہ اس کا عقیدہ رکھا جائے۔"
البتہ جنازوں کے ساتھ جانا، تو وہ احادیث جن میں عورتوں کے لیے اس کی منع آئی ہے، ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دو حدیثیں آتی ہیں۔
ایک حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ہے، اس میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک میت والوں کے ہاں گئی تھیں، جب واپس لوٹیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو کہاں تھی؟ انہوں نے کہا: اہل فلاں کا ایک آدمی فوت ہو گیا ہے، تو میں ان کے ہاں تعزیت کے لیے گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: شاید کہ تو ان کے ساتھ کدی (قبرستان) بھی گئی ہو گی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ! آپ نے فرمایا: ہاں اگر تو نے یہ کیا ہوتا تو جنت کو نہ دیکھ سکتی حتیٰ کہ تیرے باپ کا دادا اسے دیکھتا (یعنی عبدالمطلب، جو مسلمان نہیں تھا)۔ (سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب التعزیۃ، حدیث: 3123 ضعیف۔ سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب النھی، حدیث: 1880 ضعیف، مسند احمد بن حنبل: 2/168 ضعیف۔) یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث صحیح ہے جو صحیح بخاری میں آئی ہے، کہتی ہیں کہ ’’ہم عورتوں کو جنازوں کے ساتھ ان کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے مگر واجب اور لازم نہیں کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب نھی النساء عن اتباع الجنائز، حدیث: 938 و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی اتباع النساء الجنائز، حدیث: 1577 صحیح)
الغرض یہ منع کوئی حتمی اور شدید نہیں ہے، اس سے حرام ہونا ثابت نہیں ہوتا، صرف کراہت اور ناپسندیدگی ثابت ہوتی ہے۔ لہذا عورت کے لیے جنازے کے پیچھے جانا ناپسندیدہ اور مکروہ ہے، لیکن اگر چلی بھی جائے تو گناہگار نہ ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب