سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(375) قبروں کی زیارت اور فوت شدہ کے وسیلے سے دعا

  • 17982
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1496

سوال

(375) قبروں کی زیارت اور فوت شدہ کے وسیلے سے دعا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل مسائل میں شریعت اسلامی کی رو سے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کچھ لوگ قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، اور فوت شدہ بزرگوں کے لیے واسطے وسیلے سے دعائیں کرتے ہیں اور کچھ وہاں بکرے، مینڈھے نذر کرتے ہیں، جیسے جی سید بدوی، شیخ حسن یا سیدہ زینب کی قبروں پر کیا جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیارت قبور کی کئی صورتیں ہیں:

(1)۔۔۔ ایک تو مشروع اور مطلوب ہے کہ آدمی قبرستان جائے، اموات کے لیے دعا کرے، کہ خود اسے موت یاد آئے اور بندہ آخرت کی تیاری کرے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’قبروں کی زیارت کے لیے جایا کرو، بلاشبہ اس سے تمہیں آخرت یاد آئے گی۔‘‘

اور یہ زیارت مردوں کے لیے خاص ہے، عورتوں کے لیے نہیں۔ عورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز نہیں، بلکہ انہیں اس سے روکنا واجب ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ عورتوں کے اس عمل میں خود ان کے لیے فتنے کا ڈر ہے یا وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتی ہیں اور ان میں صبر کا مادہ بہت کم ہوتا ہے، اور ایسے مواقع پریہ جزع فزع ([1]) ان پر غالب ہوتی ہے۔

ایسے ہی ان عورتوں کے لیے قبرستان میں جنازوں کے پیچھے جانا جائز نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ ’’ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے، مگر آپ نے (اس منع کو) ہم پر واجب اور لازم نہیں فرمایا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب نھی النساء عن اتباع الجنائز، حدیث: 938 و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی اتباع النساء الجنائز، حدیث: 1577۔ صحیح، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 21227۔ المعجم الاوسط للطبرانی: 341/3، حدیث: 3341) یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں خود ان کے لیے فتنے کا ڈر ہے یا وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتی ہیں، اور ان میں صبر بھی کم ہوتا ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ کسی کام سے نہی میں بنیادی طور پر اس کے حرام ہونے کے معنی ہوتے ہیں، اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...﴿٧﴾... سورةالحشر

’’رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو، اور جس سے منع کر دیں اس سے باز رہو۔‘‘

اور میت کے لیے دعا کرنا مردوں عورتوں سب کے لیے مشروع اور جائز ہے، جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور مذکورہ بالا حدیث میں سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ "ہم عورتوں کو قبرستان جانے کی ممانعت کو واجب اور لازم نہیں فرمایا گیا۔ اس میں ان کے لیے قبرستان جانے کا جواز نہیں ہے۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کا اسی کام سے روک دینا ہی اس منع کے لیے کافی ہے۔ اور ان کا یہ جملہ "ہم پرواجب نہیں فرمایا" یہ ان کا اپنا اجتہاد اور گمان ہے، اور ان کے اجتہاد کو فرمان رسول کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

(2) ۔۔۔ زیارت قبور کی دوسری قسم جوجائز نہیں ہے، یہ ہے کہ آدمی قبرستان جائے اور ان اموات سے دعا و استغاثہ کرے، اس کے لیے کوئی نذر و نیاز پیش کرے یا کوئی جانور ذبح کرے، یہ بالکل ناجائز اور شرک اکبر ہے۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور اس کے ساتھ یہ بھی ملحق ہے کہ زیارت کرنے والا کسی قبر پر جا کر اپنے لیے دعا مانگنے، نماز پڑھے یا تلاوت کرے۔ یہ بھی بدعت ہے اور ناجائز ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے۔ تو اس طرح زیارت قبور کی تین قسمیں ہوئیں:

1: پہلی قسم سنت اور جائز ہے کہ آدمی ان اموات کے لیے دعا کرے اور اسے آخرت یاد آئے۔

2: دوسری قسم یہ کہ قبر پر جا کر اپنے لیے دعا کرے،نماز پڑھے، یا کوئی قربانی وغیرہ کرے تو یہ بدعت ہے اور شرک کا وسیلہ ہے۔

3: تیسری قسم کہ آدمی میت کے لیے نذر و نیاز پیش کرے، کوئی جانور ذبح کرے اور اس سے اس میت کا قرب چاہے، یا اللہ کو چھوڑ کر اس میت سے دعائیں کرے یا کسی طرح کی مدد طلب کرے، تو یہ سب شرک اکبر ہے۔ اللہ اس سے محفوط رکھے۔

ان بدعی زیارتوں سے دور رہنا واجب ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ قبر کسی ولی کی ہو یا نبی اور صالح کی۔ اور اس مسئلہ میں وہ سب شامل ہیں جو جاہل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کرتے ہیں، آپ سے دعائیں مانگتے ہیں یا مددوغیرہ مانگتے ہیں۔ اسی طرح جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ کی قبروں پر کیا جاتا ہے۔ اور مدد اللہ ہی سے ہے۔


[1] یہ مسئلہ کہ عورتوں کا قبرستان میں جانا حرام ہے، ہمارے بعض علمائے حنابلہ رحمہم اللہ کا مذہب ہے، مگر بعض دوسرے ائمہ و علماء بشرط صبر و ثبات جائز کہتے ہیں، جیسے کہ آگے والے فتوے میں آ رہا ہے، اور ہماری بھی یہی رائے ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 314

محدث فتویٰ

تبصرے