السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی گئی حدیث " نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا " کا کیا مفہوم ہے؟ (یعنی ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے، مگر واجب نہیں کیا گیا)؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک خواتین کے لیے جنازوں کے پیچھے جانے کی منع کوئی تاکید نہیں ہے۔ ویسے فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے والے نہیں میں حقیقتا حرمت نہیں حرام ہونے ہی کا مفہوم ہوا کرتا ہے۔ آپ کا فرمان ہے:
مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ ، فَانْتَهُوا ، وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ ، فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ
’’جس چیز سے میں نے تمہیں منع کر دیا ہو، اس سے باز رہا کرو، اور جس کا حکم دیا ہو وہ کیا کرو جتنی تمہاری ہمت ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ، حدیث: 6858۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب توفیرہ صلی اللہ علیہ وسلم و ترک اکثار سؤالہ، حدیث: 1337۔ السنن الکبری للبیہقی: 215/1، حدیث: 970)
مذکورہ بالا حدیث میں یہی ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستانوں میں جنازوں کے پیچھے جانا حرام ہے مگر ان کا نماز جنازہ میں شریک ہونا بالکل جائز ہے، جیسے کہ مردوں کے لیے حکم ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب