سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(368) نمازِ جنازہ کی ترکیب

  • 17975
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 889

سوال

(368) نمازِ جنازہ کی ترکیب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض یہ ہے کہ نماز جنازہ کی مسنون ترکیب بیان فرمائیں، اکثر لوگ اس سے آگاہ نہیں ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ کی ترکین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے مروی ہے، یہ ہے کہ پہلی تکبیر کہے، پھر تعوذ پڑھے، پھر بسم اللہ اور فاتحہ اور کوئی چھوٹی سورت یا چند آیات کی تلاوت کرے، پھر دوسری تکبیر کہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود پڑھے، جیسے کہ نماز کے آخر میں پڑھا جاتا ہے (درود ابراہیمی)، پھر تیسری تکبیر کہے اور میت کے لیے دعا کرے، اور افضل یہ ہے کہ یہ دعا پڑھے:

(اللَّهم اغفر لِحَيِّنَا وَميِّتِنا ، وَصَغيرنا وَكَبيرِنَا ، وذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا ، وشَاهِدِنا وَغائِبنَا . اللَّهُمَّ منْ أَحْيَيْتَه منَّا فأَحْيِه على الإسْلامِ ، وَمَنْ توَفَّيْتَه منَّا فَتَوَفَّهُ عَلى الإيمانِ) (سنن ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما یقول فی الصلاۃ علی المیت، حدیث: 1024۔ صحیح سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب الدعا للمیت، حدیث: 1024۔ صحیح سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمیت، حدیث: 3201۔ (الفاظ کے فرق اور اضافہ کے ساتھ)، حدیث: صحیح۔ مسند احمد بن حنبل: 299/5، حدیث: 22607 رجاله ثقات رجال الشیخین)

’’اے اللہ! ہمارے زندوں کو بخش دے اور ان کو جو فوت ہو چکے ہیں، اور ان کو جو حاضر ہیں اور انہیں جو غائب ہیں، ہمارے چھوٹوں کو اور بڑوں کو، ہمارے مردوں اور عورتوں کو (سب کو بخش دے)، اے اللہ! تو ہم میں سے جسے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو تو وفات دے اسے ایمان پر موت دے۔‘‘

(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ , وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ , وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ , وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ , وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ , وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ ، وَأَدْخِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ , وَأَهْلا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ , وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ , وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ , وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ , وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ) (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ، حدیث: 963 و سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الدعاء، حدیث: 1983 صحیح، مسند احمد بن حنبل: 23/6، حدیث: 24021)

’’اے اللہ! اس میت کو بخش دے، اس پر رحم فرما، اس کو آرام و راھت دے، اس کو معاف فرما دے، اس کی میزبانی بہت عمدہ بنا، اور اس کے داخل ہونے کی جگہ کو وسیع کر دے اور اسے پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال، اور گناہوں سے ایسے صاف کر دے جیسے سفید کپڑے کو میل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! اسے اس گھر کے بدلے بہترین گھر، اور اس اہل سے بڑھ کر بہترین اہل بدل دے۔ اے اللہ! اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘

’’ وافسح له قبره و نور له فيه ‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب تغمیض المیت، حدیث: 3118 صحیح، صحیح ابن حبان: 515/15، حدیث: 7041) " اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ ، وَلا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ " ([1])

’’اور اس کی قبر کو خوب کھلی کر دے، اور روشن بنا دے، اے اللہ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد گمراہ نہ کر۔‘‘

اور یہ سب دعائیں آپ علیہ السلام سے صحیح ثابت ہیں۔ اور اگر کوئی دوسری دعائیں بھی کرے تو جائز ہے، مثلا یوں کہے:

(اللهم ان كان محسنا فزد في احسانه وان كان مسئا فتجاوز عن سيئاته.)

’’اے اللہ! اگر یہ نیکوکار تھا تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما، اور اگر خطا کار تھا تو اس کی غلطیوں سے درگزر فرما۔‘‘

(اللهم اغفر له، وثبته بالقول الثابت) (المستدرک للحاکم: 511/1، حدیث: 1328 السنن الکبری للبیہقی: 40/4، حدیث: 6754)

’’اے اللہ! اسے بخش دے اور قول ثابت کے ساتھ ثابت قدم رکھ (یعنی لا الہ الا اللہ کے ساتھ)۔‘‘

پھر چوتھی تکبیر کہے اور قدرے توقف کے بعد دائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے 'السلام علیکم ورحمۃ اللہ' کہے۔

اور یہ بھی سنت ہے کہ امام مرد میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو اور عورت کے کمر کے بالمقابل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب انس اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ مرد کے سینے کے سامنے کھڑا ہونا سنت ہے اور چاہئے کہ میت کا منہ قبلہ کی طرف کر دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے متعلق فرمایا ہے:

’’یہ مسلمانوں کا قبلہ ہے، ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی۔‘‘ ([2])


[1] یہ الفاظ (عربی) ۔۔ دعا کا حصہ ہیں دیکھیے: سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمیت، حدیث: 3201 صحیح۔ و سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الدعاء فی الصلاۃ علی الجنازۃ، حدیث: 1498 صحیح۔ یہ الفاظ ایک دوسری دعا میں بھی ہیں۔ السنن الکبری للبیہقی: 40/4، حدیث: 6754

[2] ان الفاظ کے ساتھ مجھے روایت نہیں ملی، البتہ بیت اللہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قبلہ کہا ہے۔ دیکھیے: صحیح بخاری، ابواب القبلۃ، باب قبلۃ اھل المدینۃ و اھل الشام، حدیث: 384

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 307

محدث فتویٰ

تبصرے