سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) قبر والی مسجد میں نماز پڑھنا

  • 17953
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 685

سوال

(346) قبر والی مسجد میں نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھتے ہیں جن میں قبریں ہوتی ہیں۔ ان پر اعتراض کیا جاتا ہے تو وہ ہمیں مسجد نبوی کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں بھی تو قبریں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ ایسی مساجد ہیں کہ ان کے خاص شرعی احکام قیامت تک کے لیے ثابت ہیں۔ مسجد نبوی ان مساجد میں سے ہے جس کی طرف ہمیں شد رحال (سفر کرنے) کا حکم دیا گیا ہے۔ ([1]) اس میں پڑھی جانے والی نماز دوسری مساجد کی نماز کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ ([2]) اور یہ احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح قائم اور باقی ہیں، لہذا دوسری مساجد کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد کا حصہ بنایا، میرا اشارہ ہے ولید بن عبدالملک کی طرف، اس کا عمل کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ اور اس پر جناب سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے انکار بھی کیا تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر علماء نے اس پر انکار نہ کیا ہو کہ کہیں کوئی اور بڑا فتنہ سر نہ اٹھا لے۔ جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا، اور سیدہ رضی اللہ عنہ نے امت کو بتایا کہ کعبۃ اللہ اپنی اصل ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ حجر (حطیم) میں سے چھ ہاتھ کعبہ کا حصہ ہیں۔ (وضاحت کے لیے دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ و بنیانھا، حدیث: 1508 و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب نقض الکعبۃ و بنائھا، حدیث: 1333) مگر اس کے باوجود آپ نے کعبہ کو اسی طرح رہنے دیا، کیونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور وہ کعبہ میں یہ تبدیلی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر تبدیلی کی جاتی تو عین ممکن تھا کہ یہ ان کے لیے کسی فتنے کا باعث بن جاتی۔

چنانچہ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی تو انہوں نے کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کیا، جبکہ حجاج بن یوسف نے کعبہ پر منجبیقوں کے ذریعے سے سنگ باری کر کے اسے ۔۔۔ کر دیا تھا۔ مگر عبدالملک بن مروان نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے شہید کیے جانے کے بعد کعبہ کو گرا کر پھر پہلی حالت پر تعمیر کرا دیا، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی تعمیر پر قائم نہ رہنے دیا۔ بعد میں جب اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بتائی گئی تو اس نے دوبارہ اس طرح تعمیر کے متعلق سوال کیا تو کہا گیا کہ اب اسے اسی طرح رہنے دو، کہیں یہ معاملہ سیاسی اکھاڑہ نہ بن جائے۔ چنانچہ اس نے بھی اسے اسی طرح رہنے دیا۔الغرض دنیا کی کسی مسجد کو مسجد نبوی پر یا مسجد الحرام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ یہ جائز ہے۔


[1] حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور اپنی مسجد (مسجد نبوی) کے علاوہ کسی مسجد کی طرف بغرض و بنظریہ ثواب شد رحال (سفر) کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ، باب مسجد بیت المقدس، حدیث: 1198 و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ، حدیث: 827

[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: میری اس مسجد میں (پڑھی گئی) نماز ایک ہزار نماز سے بہتر ہے مسجد الحرام کے علاوہ دوسری مساجد کی نسبت۔ صحیح بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، حدیث: 1190، و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکہ والمدینۃ، حدیث: 1394

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 293

محدث فتویٰ

تبصرے