السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اپنے شوہر سے علم و فقہ میں کافی حد تک فائق ہوں اور وہ گویا آدھا ان پڑھ ہے جبکہ میں کلیہ شرعیہ کی طالبہ ہوں۔ تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ نماز میں اپنے شوہر کی امام بن جایا کروں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے کسی طرح جائز نہیں کہ مردوں کی امامت کرا سکے، خواہ اس کا ان کے ساتھ تعلق شوہر، بیٹے یا باپ والا ہی کیوں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی کسری و قیصر، حدیث: 4163 و سنن الترمذی، کتاب الفتن، باب لا نھی عن سب الریاح (باب منہ)، حدیث: 2262)
’’وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جنہوں نے اپنا معاملہ عورت کے سپرد کر دیا۔‘‘
خواہ عورت قراءت قرآن میں ان مردوں سے کسی قدر بڑھ کر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
(يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب من احق بالامامۃ، حدیث: 673 و سنن الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب من احق بالامامۃ، حدیث: 235 و سنن النسائی، کتاب الامامۃ، باب من احق بالامامۃ، حدیث: 780)
’’قوم کی امامت وہ کرائے جو ان میں کتاب اللہ کا زیادہ قاری ہو۔‘‘
اس خطاب میں مردوں کے ساتھ عورت شامل نہیں ہے۔ قوم کا لفظ مردوں کے لیے استعمال ہوا ہے، عورتوں کے لیے نہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ عَسىٰ أَن يَكونوا خَيرًا مِنهُم وَلا نِساءٌ مِن نِساءٍ عَسىٰ أَن يَكُنَّ خَيرًا مِنهُنَّ ...﴿١١﴾... سورة الحجرات
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے ٹھٹھا مذاق نہ کیا کرے، ہو سکتا ہے وہ ان سے افضل اور بہتر ہو (یعنی مرد، مردوں سے مذاق نہ کیا کریں)، اور نہ عورتوں سے ٹھٹھا مذاق کیا کریں، ہو سکتا ہے وہ ان سے اٖل اور بہتر ہوں۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے افراد معاشرہ کو مردوں اور عورتوں کے دو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ الغرض مسئلہ امامت میں لفظ ’’قوم‘‘ مردوں کے لیے ہے، اس میں عورتیں شامل نہیں ہیں۔ ([1])
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ ہاں اگر عورتوں کی جماعت ہو رہی ہو تو ان میں وہی عورت امام بنے جو ان میں قرآن و سنت کے علم میں ان سے بڑھ کر ہو۔ (ع س)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب