سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(331) دورانِ نماز ٹیلیفون کی گھنٹی بجنا

  • 17938
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 571

سوال

(331) دورانِ نماز ٹیلیفون کی گھنٹی بجنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون کا سوال ہے، کہتی ہے کہ میں نے بعض سے سنا ہے کہ اگر نماز کے دوران میں ٹیلیفون کی گھنٹی بچے تو آلہ سماعت اٹھا کر اللہ اکبر کہہ کر اسے رکھ دیا کروں، تو اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ کسی اہم مصلحت کے پیش نظر نماز کے دوران عمومی طور پر کچھ عمل کر لینا جائز ہے، جیسے کہ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

کہتی ہیں کہ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا جبکہ دروازہ بند تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز پڑھ رہے تھے، اور دروازہ قبلہ کی جانب تھا، تو آپ کچھ چلے اور دروازہ کھول دیا اور پھر اپنی جگہ پر آ گئے۔ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب العمل فی الصلاۃ، حدیث: 922، و سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما یجوز من المشی والعمل فی ۔۔ ومسند احمد بن حنبل: 31/6 مسند ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا) معلوم ہوا کہ نماز کے دوران آگے پیچھے ہونے جیسا عمل جائز ہے، اور دوسرا جو نماز نہیں پڑھ رہا ہے، نمازی کوئی بات کہے تو بھی جائز ہے۔ جس طرح کہ صحیحین میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا ہوا تھا، تو میں نے دیکھا کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہے تھے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بنو حرام کی کچھ عورتیں آئی ہوئی تھیں، کہتی ہیں کہ میں نے لونڈی سے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جا اور آپ کی داہنی جانب کھڑی ہو جانا اور کہنا کہ ام سلمہ عرض کرتی ہے کہ میں نے آپ سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد نماز سے منع فرماتے ہیں، اور آپ ہیں کہ اب پڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ تجھے اشارہ کریں تو پیچھے ہو جانا۔ چنانچہ لونڈی گئی اور آپ کی داہنی طرف جا کر آپ سے اسی طرح کہا جیسے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، تو آپ نے اسے اشارہ کیا کہ پیچھے ہو جا۔ چنانچہ وہ پیشھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ قبیلہ بنی عبد قیس کا ایک وفد آ گیا تھا، انہوں نے مجھے نماز ظہر کی پہلی سنتوں سے مشغول کر دیا تھا (تو یہ وہی سنتیں ہیں)۔ (مسند احمد بن حنبل: 248/6) اس حدیث سے استدلال یہی ہے کہ لونڈی نے جب آپ سے بات کی تو آپ نے اسے پیچھے ہو جانے کا اشارہ کیا۔

ایسے ہی ایک بار آپ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے اشارہ فرمایا تھا۔ صحیح میں مروی ہے، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ان کی صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے، تو میں تکبیر کہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ چنانچہ مؤذن نے تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں میں سے ہوتے ہوئے اگلی صف میں آ گئے، لوگوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہ ہوا کرتے تھے، مگر جب انہوں نے بار بار تالیاں سنیں تو وہ کچھ متوجہ ہوئے (آنکھ گھما کر دیکھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہہاتھ بلند کیے اور اللہ کی حمد کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ اشارہ فرمایا ہے، اور پھر وہ پیچھے ہٹ آئے حتیٰ کہ صف میں شامل ہو گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہو گئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔

آپ جب نماز پڑھا چکے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تجھے اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے سے کیا مانع ہوا تھا جب کہ میں نے تجھے حکم بھی دیا تھا۔" تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ابی قحافہ کے بیٹے کو لائق نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے ہو کر نماز پڑھاتا۔ پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا: تمہیں کیا ہوا تھا کہ تم نے اس قدر تالیاں بجائیں؟ جسے اپنی نماز میں کچھ عارضہ پیش آ جائے تو چاہئے کہ وہ’’سبحان اللہ‘‘ کہے۔ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی۔ اور تالی بجانا صرف عورتوں کے لیے ہے۔‘‘

اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (التسبيح الرجال ولتصفق النساء) (سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لیے)

الغرض عورت کو اگر نماز کے دوران کوئی عارضہ پیش آ جائے تو اسے چاہئے کہ تالی بجا کر متنبہ کرے، وہ تکبیر نہیں کہہ سکتی بالخصوص جب غیر مرد بھی موجود ہوں، اور نہ ہی کہ نماز کے دوران اس طرح کا عمل جائز ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 281

محدث فتویٰ

تبصرے