سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(323) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والی حدیث

  • 17930
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 841

سوال

(323) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والی حدیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنن ابی داؤد میں ہے، حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی، پھر قراءت کی، پھر رکوع کے لیے تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہا حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی۔‘‘(سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ، حدیث: 730) کیا ہم اس حدیث سے یہ معنی لے سکتے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ بھی بائیں پر آ جائے، اور انہیں باندھ لیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث میں بیان یہ ہے کہ انسان کا بدن اس طرح ہونا چاہئے جو فطری طور پر معلوم و معروف ہے، اور ہر عضو کی اصل جگہ اس کی اصل وضع اور خلقت کے ساتھ ہے اور وہ ہے ہاتھ چھوڑ کے کھڑا ہونا۔

فائدہ:۔۔۔ کوئی عام نص، جس کے کئی اجزاء اور پہلو ہوں، تو اس کے کسی خاص جزوی مسئلہ پر اگر سلف نے عمل نہ کیا ہو تو ہمیں بھی اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا (یہ ایک اہم قاعدہ ہے)۔

اس اہم ترین قاعدہ سے آگاہ نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بے شمار بدعات نے راہ پا لی ہے، اور جب ان میں غور کرتے ہیں تو ہمیں سنت میں ان کے عمومی دلائل مل جاتے ہیں بلکہ کئی تو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔

مثلا اذان سے پہلے اضافہ جسے کہیں تذکیر بالآیات بھی کہا جاتا ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود و سلام پڑھا جاتا ہے، ہمیں اس کے بدعت ہونے میں ذرا برابر شک نہیں ہے مگر یہ لوگ ہمیں یہ آیت سنانے لگتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورةالأحزاب

’’اے ایمان والو! نبی پر درود پڑھا کرو اور سلام کہا کرو سلام کہنا۔‘‘

ان کا یہ استدلال ایک عام نص سے ہے جس میں نبی علیہ السلام کے لیے صلاۃ و سلام کا وقت یا اس کی جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بتائی ہیں: ایک بدعت حقیقی اور دوسری اضافی۔

بدعت حقیقی سے مراد وہ ہے جس کی کتاب و سنت میں کہیں کوئی اصلیت نہ ملتی ہو جیسے کہ جبریہ عقائد کے لوگ ہیں یا مرجئہ ہیں۔

اور اضافی بدعت وہ ہے کہ اگر آپ ایک جانب سے دیکھیں تو آپ کی اس کا کوئی اصل معلوم ہو، اور اگر دوسری جانب سے دیکھیں تو آپ کو اس کی کوئی اصل دکھائی نہ دے۔

مثلا ہر نماز کے بعد استغفار سنت ہے، مگر اجتماعی طور پر یہ عمل کرنا اس کی کوئی اصل نہیں ہے، لہذا بدعت ہے یا سنتیں پڑھنا (مؤکدہ یا غیر مؤکدہ) ایک مشروع اور مسنون عمل ہے، تو اگر کوئی انہیں باجماعت پڑھنے لگے اور دلیل یہ دے کہ (يد الله على الجماعة) ’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔’’ یا حدیث ‘‘دو آدمیوں کی نماز اکیلے کی نماز سے اور تین کی نماز اللہ کے ہاں دو کی نماز سے فضیلت رکھتی ہے۔‘‘

تو یہ دلائل عام ہیں (ان سے یہ جزوی مسائل ثابت نہیں کیے جا سکتے)۔

لہذا جب کسی کے سامنے کسی عام نص سے کسی معین اور خاص عمل کی مشروعیت کا مسئلہ آ جائے تو اسے چاہئے کہ سلف صالحین کے طرز عمل پر غور کرے کہ آیا انہوں نے یہ کیا ہے یا نہیں، اس سے بدعت سے محفوظ رہ کر سنت پر قائم رہا جا سکتا ہے۔

ہم اپنی اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں کہ کئی احادیث ہیں جن کے عموم سے کچھ علماء نے بعض مسائل کا استنباط کیا ہے، مگر سلف نے وہ استنباط نہیں کیا۔ چنانچہ ہمیں سلف میں صحابہ یا ائمہ میں سے کوئی ایسے لوگ نہیں ملتے جنہوں نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو مستحب کہا ہو۔ جیسے کہ رکوع سے پہلے ان کا باندھنا تمام اہل سنت کے نزدیک سنت ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 275

محدث فتویٰ

تبصرے