السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کی ماہانہ عادت میں دو، تین یا چار ایام کا اضافہ ہو گیا، مثلا اس کی سابقہ عادت چھ یا سات دن تھی مگر اب دس گیارہ یا پندرہ دن ہو گئی، اور وہ صرف ایک دن یا ایک رات ہی کے لیے پاک ہوتی ہے اور پھر حیض شروع ہو جاتا ہے، تو کیا یہ غسل کر کے نماز پڑھے یا رکی رہے حتیٰ کہ کامل طور پر پاک ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی عادت میں تبدیلی آ گئی ہے اور یہ مستحاضہ بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر بات فی الواقع ایسے ہی ہو جیسے کہ ذکر کی گئی ہے کہ حیض صرف ایک رات کے لیے رکا ہے تو اسے چاہئے کہ طہر کا جو وقت اسے ملا ہے اس میں نمازیں ادا کرے، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:
’’عورت کو خون اگر خوب سرخ اور کثرت سے آیا ہو تو نماز نہ پڑھے، اور جب ایک ساعت کے لیے بھی طہر دیکھے تو غسل کرے۔‘‘ (سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب من قال اذا اقبلت الحیضۃ تدع الصلاۃ، حدیث: 286۔ سنن الدارمی: 224،225/1، حدیث: 800 و مصنف ابن ابی شیبۃ: 120/1، حدیث: 1367)
اور یہ بھی روایت ہے کہ ’’اگر طہر ایک دن سے کم ہو تو اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔‘‘ کیونکہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’عورتوں کو جلدی نہیں مچانی چاہئے حتیٰ کہ وہ پھایہ کو خوب سفید دیکھ لیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب اقبال المحیض و ادبارہ، مصنف عبدالرزاق: 301/1، حدیث: 1159۔ السنن الکبیری للبیہقی: 335/1، حدیث: 1486)
کیونکہ خون کسی وقت جاری رہتا اور کسی وقت رک جاتا ہے، اور محض اس کے رک جانے سے طہر ثابت نہیں ہوتا مثلا اگر ایک گھنٹے بھر کے لیے یا اس سے کم کے لیے رکا ہو۔ صاحب مغنی (علامہ ابن قدامہ حنبلی) نے یہی قول اختیار کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب