السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کی نماز گھر میں افضل ہے یا مسجد حرام میں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرد ہوں یا عورتیں سب کے لیے نفل نماز اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں عموم ہے:
(افضل صلاة المرء فى بيته الا المكتوبة) (صحیح بخاری، کتاب الجماعۃ ولامامۃ، باب صلاۃ اللیل، حدیث: 698۔ صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب ستحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ، حدیث: 781۔ سنن النسائی، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار، باب الحث علی الصلاۃ فی البیوت ، حدیث: 1599)
’’فرضوں کے علاوہ آدمی کی فضیلت والی نماز وہی ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام نوافل گھر میں پڑھا کرتے تھے، اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ:
(صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام) (صحیح بخاری، کتاب ابواب التطوع، باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، حدیث 1133 صحیح مسلم، کتاب الحج، با ب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ ولمدینۃ، حدیث: 1394۔ سنن الترمذی، کتاب ابواب الصلاۃ، باب ای المساجد افضل، حدیث: 325)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز۔ مسجد حرام کے علاوہ۔ باقی سب مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہے۔‘‘
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ: مثلا آپ مکہ میں اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوں اور ظہر کی اذان ہو جائے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ آپ ظہر کی مؤکدہ سنتیں اپنے گھر میں پڑھیں اور پھر مسجد حرام میں آئیں، وہاں آ کر تحیۃ المسجد ادا کر لیں۔
اور اسی بنا پر بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں نمازوں کا جو اضافی ثواب بیان کیا گیا ہے وہ صرف فرض نمازوں سے متعلق ہے کیونکہ فرض ہی مسجدوں میں ادا کیے جاتے ہیں اور نوافل میں یہ اضافی ثواب نہیں ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ اجروثواب فرض و نفل سب نمازوں کے لیے عام ہے۔ اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسجد حرام وغیرہ میں پڑھے جانے والے نوافل گھر میں پڑھے گئے نوافل سے افضل ہوتے ہیں۔ فضیلت ان نوافل کو ہے جو گھر میں پڑھے گئے ہوں۔ لیکن اگر انسان مسجد حرام میں آئے اور تحیۃ المسجد ادا کرے تو یہ تحیۃ المسجد باقی مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ تحیۃ المسجد سے افضل ہوں گے اور مسجد نبوی میں ادا کیے گئے تحیۃ المسجد مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہوں گے۔ اور اسی طرح اگر آپ مسجد حرام میں آئی ہیں اور تحیۃ المسجد پڑھ لیے ہیں اور ابھی فرضوں کا وقت نہیں ہوا، تو اگر آپ نوافل پڑھنے لگیں تو یہ نوافل باقی مساجد کے نوافل سے ایک لاکھ گنا افضل اور بہتر ہوں گے اور اسی طرح باقی کو قیاس کر لیجئے۔ اور اسی طرح (عورتوں کے لیے) فرض نمازوں کا مسئلہ ہے کہ ان کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ گھروں میں ادا کریں۔
اور قیام رمضان کے مسئلہ میں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس میں افضل یہ ہے کہ عورتیں مسجدوں میں آ کر قیام کریں۔ اس کے لیے ان کا استدلال اس روایت سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا اور انہیں رمضان کا قیام کروایا۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو حکم دیا کرتے تھے جو مسجد میں عورتوں کی امامت کرایا کرتا تھا۔ مگر میرے نزدیک اس میں توقف ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما (یہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام ہونا درست ہے جو پیچھے بیان کردہ آثار سے واضح ہے (عاصم)۔ واللہ اعلم) سے منسوب دونوں اثر ضعیف ہیں، ان سے دلیل نہیں لی جا سکتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر والوں کو اکٹھے کر کے قیام کروانے میں اس بات کی صراحت نہیں کہ آیا وہ مسجد میں تھا یا گھر میں؟ میرے نزدیک یہ مسئلہ قابل تحقیق ہے کہ عورت کے لیے قیام رمضان میں افضل کیا ہے، مسجد حرام یا اس کا گھر؟ یہ فرمان تو ثابت ہے کہ ’’عورت کے لیے اس کا گھر افضل ہے۔‘‘ الا یہ کہ کوئی واضح نص مل جائے جو یہ ثابت کر دے کہ عورت کے لیے مسجد حرام کی نماز افضل ہے۔ ہاں اگر وہ (عورت) مسجد حرام میں آئی ہو اور وہاں نماز میں شامل ہوئی ہو تو امید وہ اس ثواب کی مستحق ہو گی جو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’مسجد حرام کی ایک نماز دیگر مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ گنا افضل ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ فی المسجد الحرام، حدیث: 1406۔ مجمع الزوائد: 675/3، حدیث: 5873۔) لیکن اگر عورت کے گھر سے باہر نکلنے میں فتنہ ہو تو بلاشبہ اس کا گھر میں رہنا ہی افضل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب