سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(278) عورتوں کا نمازِ جمعہ کے لیے مسجد میں جانا

  • 17885
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1059

سوال

(278) عورتوں کا نمازِ جمعہ کے لیے مسجد میں جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، پھر مسلمان ہو گیا اور ساتھ ہی میری بیوی بھی مسلمان ہو گئی۔ ایک جمعہ کے دن میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر مسجد جانے لگا تو مجھے کہا گیا کہ عورتوں کو مسجدوں میں جانا منع ہے۔ تو میں مسجد کے امام صاحب کے پاس چلا گیا اور اس سے دریافت کیا کہ مسلمان خاتون کو مسجد میں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ سب عورتیں صاف نہیں ہوتی ہیں، حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں بھی مسلمان عورتیں مسجدوں میں نہیں جاتی ہیں اور انہیں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے امام صاحب کو سورہ جمعہ کی یہ آیت کریمہ پیش کی:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ... ﴿٩﴾... سورةالجمعة

سوال یہ ہے کہ آیا یہ بات درست ہے، کیا یہ اسلام کا حکم ہے؟ حالانکہ عیسائی عورتیں اپنے گرجوں میں عبادت کے لیے جاتی ہیں تو مسلمان عورتوں کے لیے مسجدوں میں جانا کیوں جائز نہیں ہے؟ براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں تاکہ عام مسلمانوں کو بھی رہنمائی حاصل ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان خاتون کو بجا طور پر اس بات کی اجازت ہے کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھ سکے، حتیٰ کہ اس کے شوہر کے لیے بھی جائز نہیں کہ جب اس کی بیوی اس سے مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اس کو منع کر سکے بشرطیکہ عورت نے کامل شرعی پردہ کیا ہو اور اس کے بدن کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو جس پر غیر محرم کی نظر پڑنا حرام ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم سے تمہاری عورتیں مسجد جانے کی اجازت طلب کریں تو انہیں اجازت دے دیا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب استئذان المراۃ زوجھا فی الخروج الی المسجد، حدیث: 5238، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث: 446)

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’عورتوں کو ان کے مسجدوں کے حصے سے مت روکو، جب وہ تم سے اجازت لے کر جائیں۔‘‘ یہ روایت سن کر جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے بلال رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم! ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تجھے بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور تو ہے کہ کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں روکیں گے (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث: 446۔ سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المسجد، حدیث: 568)اور یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم میں آئی ہیں۔

اگر عورت بے پردہ ہو، کہ اس کے بدن سے کچھ نمایاں ہو جس پر غیروں کی نظریں پڑنا حرام ہے یا اس نے خوشبو لگا رکھی ہو تو اس حالت میں اسے گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے کجا کہ وہ مسجد جائے، کیونکہ اس میں فتنہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَو‌ٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ أُولِى الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَروا عَلىٰ عَور‌ٰتِ النِّساءِ وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورةالنور

’’اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مارے رہیں، اور اپنی آرائش ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے خسر کے، یا اپنے لڑکوں کے، یا اپنے خاوندوں کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا اپنے غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پا جاؤ۔‘‘

اور سورۃ الاحزاب میں فرمایا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥٩﴾... سورةالاحزاب

’’اے نبی اپنی بیویوں سے اور اپنی صاجزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی، پھر ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور احادیث میں سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عورتوں سے) فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی عورت عشاء کے لیے آنا چاہے تو اسے اس رات خوشبو نہیں لگانی چاہئے‘‘( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث: 443) اور دوسری روایت میں ہے "جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں آنا چاہے تو خوشبو کو نہ چھوئے۔"( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث: 443) یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم میں ہیں۔

اور احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کی عورتیں فکر کی جماعت میں حاضر ہوا کرتیں تو اپنی بڑی چادروں میں لپٹی ہوئی آتی تھیں، کوئی انہیں پہچان نہ پاتا تھا۔( صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: 867)

اور یہ بھی ثابت ہے کہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن بیان کرتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، فرماتی تھیں کہ ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا یہ انداز دیکھ لیتے جو انہوں نے اب اختیار کر لیا ہے، تو آپ انہیں مسجدوں میں آنے سے یقینا منع فرما دیتے، جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا۔‘‘ عمرہ سے پوچھا گیا: کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ: ’’ہاں۔‘( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المسجد، حدیث: 445۔ صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: 869۔ سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب التشدید فی ذلک، حدیث: 569)

ان بیانات سے واضح ہے کہ مسلمان خاتون جب اپنے لباس وغیرہ میں شرعی آداب کی پابند ہو، فتنہ ابھارنے کا باعث نہ بنتی ہو یا اپنی پرکشش زینت کے ذریعے سے کمزور ایمان لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کرنے والی ہو تو اسے مسجد میں نماز کے لیے حاضری سے روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے برخلاف اگر اس کے چلن ایسے ہوں کہ بدطنیت لوگوں کو مائل کرنے والی ہو، ان کے لیے فتنے کا باعث ہو تو مسجدوں میں جانے سے اسے روکا جائے گا بلکہ گھر سے نکلنے اور عام اجتماع کے مقامات پر جانے کی بھی اسے اجازت نہیں دی جائے گی۔

اور یہ جو کہا گیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں عورتوں کو مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے، بلکہ انہیں کھلی اجازت ہے اور وہ مسجد حرام میں جا کر باجماعت نماز ادا کرتی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ جگہیں مقرر ہیں کہ وہ نماز وغیرہ میں مردوں کے ساتھ مختلط نہ ہوں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 245

محدث فتویٰ

تبصرے