سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) عورت کا نماز میں ہاتھ پاؤں ڈھانپنے یا ننگے رکھنے کا حکم

  • 17867
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1075

سوال

(260) عورت کا نماز میں ہاتھ پاؤں ڈھانپنے یا ننگے رکھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے لیے نماز میں ہاتھ اور پاؤں ڈھانپنے یا ننگے رکھنے کا کیا حکم ہے اور اس کی دلیل کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت سے متعلق اس مسئلے کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اور سنن ترمذی میں بسند صحیح آئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

المراة عورة، فاذا اخرجت استشرفها الشيطان (سنن الترمذی، کتاب الرضاع، باب کراھیۃ الدخول علی المغیبات (باب عنہ)، حدیث: 1173۔ صحیح ابن حبان: 413/12 حدیث: 5599۔ مصنف ابن ابی شیبۃ: 157/2 حدیث: 7616)

’’عورت قابل ستر ہے، جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا اور جھانکتا ہے۔‘‘

اس میں ہے کہ عورت کا سارا بدن قابل ستر ہے سوائے اس کے جسے شریعت نے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ جمہور کے نزدیک عورت کا چہرہ اور دونوں ہاتھ ستر میں شامل نہیں ہیں۔ تو اسے اجازت ہے کہ نماز میں وہ انہیں نہ ڈھانپے۔ لہذا جمہور کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں سے زیادہ حصے کو ننگا کرنا حرام ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عورت اپنے پاؤں بھی ننگے رکھ سکتی ہے اور ان کی دلیل سنت اور قیاس ہے۔

سنت کی دلیل جو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترجیح میں ذکر کی ہے۔

حضرت اُم سلمہ کی حدیث ہے جو سنن ابوداؤد میں مروی ہے۔ کہتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول! کیا عورت اپنی لمبی قمیص اور اوڑھنی میں نماز پڑھ لے جبکہ اس نے نیچے چادر نہ باندھی ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب اس کی قمیص پوری اور کامل ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھانپ لے‘‘ (تو درست ہے)۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی کم تصلی المراۃ، حدیث: 640۔ المستدرک للحاکم: 250/1، حدیث: 639۔ موطا امام مالک: 142/1، حدیث: 36)

تو ہو سکتا ہے کہ عورت جب رکوع کرے تو اس کی ایڑیاں نمایاں ہو جائیں اور سجدے میں اس کے لتلوے بھی ننگے ہوں گے ۔۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں ایک مجہول عورت کا واسطہ ہے۔ نیز یہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے موقوف بھی مروی ہے اور اس سند میں بھی اس مجہول کا واسطہ ہے۔

اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قدموں کو ہاتھوں پر قیاس کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح ہاتھوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے ایسے ہی قدموں کو بھی نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ جمہور نے اس قیاس پر اعتراض کیا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا نمایاں کرنا، اصل قاعدہ کے خلاف ہے۔ ان (جمہور) کے نزدیک اصل یہ ہے جو بیان ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’عورت قابل ستر ہے‘‘ چنانچہ شریعت نے اجازت صرف چہرے اور ہاتھوں کی دی ہے۔ شریعت میں جب کوئی حکم یا نص خلافِ قصد (اصل) آ جائے تو اس پر کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اس طرح کے قیاسات سے اصل مقصد ضائع اور فوت ہو سکتا ہے۔ لہذا عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے چہرے یا ہاتھوں سے زائد اپنے جسم کا کوئی حصہ نمایاں کرے، جیسے کہ جمہور کا مذہب ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں ایک روایت یہ بھی ہے جسے امام خرقی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ عورت کو ہاتھ ننگے کرنے جائز نہیں ہیں، اسے صرف چہرے کی اجازت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دلائل جن کی رو سے بصراحت ہاتھوں کو نمایاں کرنا ثابت ہوتا ہے وہ ضعیف ہیں" اور جو دلائل صحیح ہیں وہ صریح نہیں۔ لہذا ان کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی۔

اور شکصی طور پر میں اسی قول کا قائل ہوں اور میرے گھر میں بھی اس پر عمل ہوتا ہے۔ ہمارے گھر کی عورتیں اپنی نمازوں میں اپنے ہاتھ ظاہر نہیں کرتی ہیں۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اپنی نماز میں چہرہ اور دونوں ہاتھ نمایاں کر سکتی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 236

محدث فتویٰ

تبصرے