السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حائضہ عورت کے لیے جائز ہے کہ مساجد میں درس وغیرہ کے اجتماع میں شریک ہو جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حائضہ عورت کے لیے مسجد میں رکنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر مسجد میں سے گزرنے کی ضرورت ہو تو گزر سکتی ہے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ اپنے جسم سے نکلنے والی آلائش سے مسجد کو کسی طرح آلودہ نہ ہونے دے۔ تو جب اسے مسجد میں رکنا جائز نہیں ہے تو اس کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ درس و ذکر یا قراءت قرآن کے لیے مسجد میں جائے ۔۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر مسجد سے باہر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے سے آواز پہنچ رہی تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ عورت کے لیے بجا طور پر جائز ہے کہ وہ اپنی اس حالت میں درس و ذکر یا قراءت قرآن سنے۔ جیسے کہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود کا سہارا لے لیتے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہوتے تھے جبکہ وہ ایام سے ہوتی تھیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب قراءۃ الرجل فی حجر امراتہ وھی حائض، حدیث: 297۔ صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا و ترجیلہ۔، حدیث: 301۔ سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ و سنھا، باب الحائض تتناول الشئی من المسجد، حدیث: 634)
مگر اس حال میں عورت کا مسجد میں جانا خواہ درس و ذکر یا قراءت قرآن ہی کی غرض سے کیوں نہ ہو، جائز نہیں ہے۔ جیسے کہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے ایام شروع ہو گئے ہیں تو آپ نے کہا: ’’کیا بھلا یہ ہمیں روکنی چاہتی ہے؟‘‘ یعنی آپ کو خیال ہوا کہ شاید اس نے طواف افاضہ نہیں کیا ہے۔ تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ طواف کر چکی ہیں ۔۔ الخ۔( صحیح بخاری، کتاب الحج، باب اذا حاضت المراۃ بعد ما افاضت، حدیث: 1670۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان وجوہ الاحرام و انہ یجوز افراد الحج۔۔۔، حدیث: 1211۔ صحیح ابن خزیمۃ: 310/4، حدیث: 2954) تو یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت بحالت حیض مسجد میں نہیں رک سکتی خواہ عبادت ہی کی نیت رکھتی ہو۔ بلکہ اس کے مقابل یہ ثابت ہے کہ آپ نے خواتین کو حکم دیا کہ وہ عید کے روز عید اور ذکر میں شمولیت کے لیے عید گاہ میں حاضر ہوں مگر حیض والیوں کو حکم دیا کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب