السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ ایام حیض میں اپنے حفظ سے زبانی قرآن کریم پڑھ لیا کرے ۔۔ اور ایسے ہی کیا اسے جائز ہے کہ اپنے نوخیز بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیا کرے جبکہ وہ خود حیض سے ہو اور بچے بھی چھوٹے ہوں اور مکاتب میں زیر تعلیم ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حائضہ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرے نہ قرآن کریم سے دیکھ کر اور نہ حفظ سے زبانی۔ کیونکہ وہ حدث اکبر کی حالت میں ہے، اور جو حدث اکبر کی حالت میں ہو جیسے کہ حیض ہے یا جنابت اسے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں تلاوت قرآن سے پرہیز کرتے تھے اور حیض بھی جنابت ہی طرح حدث اکبر ہے اور تلاوت قرآن سے مانع ہے۔ ہاں ۔ اگر حفظ قرآن کریم بھول جانے کا ڈر ہو کہ ایام حیض میں اگر اس نے تلاوت کئی دن چھوڑے رکھی تو یاد کیا ہوا بھول جائے گا تو اس حالت میں اسے تلاوت کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ ایک لازمی ضرورت ہے۔
اور ایسے ہی کسی طالبہ کا حال ہے کہ قرآن کریم کا امتحان اور پرچہ دینا ہو، اور ادھر سے اس کے ایام حیض بھی شروع ہو جائیں ۔۔ اور یہ کئی کئی دن رہتے ہیں اور اس کے لیے ناممکن ہے کہ حیض کے بعد اس کا امتحان دے سکے تو اسے بغرض امتحان اس کی تلاوت کی اجازت ہے۔ کیونکہ اگر اس سے یہ امتحان رہ گیا تو وہ فیل ہو جائے گی اور اس میں اس کا بہت بڑا نقصان ہے۔ لہذا طالبہ کو بھی اس کی اجازت ہے کہ امتحان وغیرہ کے لیے قرآن کریم پڑھ سکتی ہے، زبانی بھی اور قرآن کریم دیکھ کر بھی، مگر شرط یہ ہے کہ براہ راست اسے ہاتھ نہ لگائے۔
مگر اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے اس کا پڑھنا ۔۔ جبکہ وہ حیض سے ہو، تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ایسی اہم ضرورت نہیں ہے۔[1]
[1] اس مسئلہ میں اس سے بڑھ کر واضح فتویٰ فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو آگے آ رہا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب