السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کو تقریبا نو دن خون آتا رہا اور اس نے نماز چھوڑ دی، اس خیال سے کہ یہ ماہانہ ایام کا خون ہے مگر چند دن کے بعد جو خون آیا اور معلوم ہوا کہ یہی خون (جو اسے بعد میں آیا) اس کی حقیقی عادت کا خون تھا، تو کیا اسے اپنے ان پہلے دنوں کی نماز دہرانی چاہئے یا نہیں ۔۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
افضل یہی ہے کہ یہ اپنے ان پہلے دنوں کی نمازیں دہرائے جن میں اس نے شبہ میں پڑ کر نماز نہیں پڑھی۔ اور اگر نہ بھی دہرائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو اس کے سابقہ دنوں کی نمازیں دہرانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ:
’’مجھے استحاضہ آتا ہے بڑا سخت، اور میں اس میں نماز چھوڑ دیتی ہوں، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ تو چھ یا سات دن حیض کے بنا اور مہینے کے باقی دنوں میں نماز پڑھا کر۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب من قال اذا قبلت الحیضۃ تدع الصلاۃ، حدیث: 287۔ سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب المستحاضۃ تجمع بین الصلاتین بغسل واحد، حدیث: 128۔ سنن ابن ماجہ: کتاب الطھارۃ، باب ما جاء فی المستحاضۃ التی قدعدت ایام اقرائھا، حدیث: 115)
تو آپ نے اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کے دہرانے کا حکم نہیں دیا۔ لہذا اگر وہ یہ نمازیں دُہرا لے تو بہت بہتر ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس پر سوال اور مؤاخذہ ہو کہ تو نے مسئلہ دریافت کیوں نہ کیا تھا۔ اور اگر نہ بھی دہرائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب