سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) شوہر کے بلانے پر بیوی کو بات ماننی چاہیے

  • 17800
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 961

سوال

(193) شوہر کے بلانے پر بیوی کو بات ماننی چاہیے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر شوہر بیوی کو بلائے اور وہ اپنے ماہانہ ایام کے آخر میں ہو، تو کیا وہ شوہر کی بات قبول کرے یا نہیں؟ اس معاملے کا شرعی حکم کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو بخوبی علم ہے کہ ان مخصوص دنوں میں عورت مرد کا ملاپ جائز نہیں ہے۔ اور یہ مسئلہ اللہ عزوجل کے فرمان سے بصراحت ثابت ہے۔ فرمایا:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورةالبقرة

’’یہ لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجیے کہ یہ گندگی ہے۔ سو حیض میں عورتوں سے الگ رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائیں، اور جب وہ پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان کو آؤ جہاں سے کہ تم کو اللہ نے حکم دیا ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘

اور علماء کا بھی اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ ان مخصوص ایام میں شوہر کو اپنی زوجہ سے ملاپ حرام ہے، اور بیوی پر بھی واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اس سے روکے اور منع کرے اور اس کی بات نہ مانے اور اس کا مطالبہ تسلیم نہ کرے کیونکہ یہ ایک حرام کام ہے اور

لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق (مصنف ابن ابی شیبۃ، 545/6، حدیث: 33717۔ المعجم الکبیر للطبرانی: 170/18، حدیث: 381۔ المعجم الاوسط للطبرانی: 181/4، حدیث: 3917)

’’اللہ عزوجل کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔‘‘

تاہم بیوی کی جانب سے اس کے اس قسم کے عذر کی کیفیت میں شوہر کو اس حد تک رخصت ہے کہ مجامعت کیے بغیر تلذذ حاصل کر لے۔ لیکن اگر اس کیفیت سے انزال ہو گیا تو غسل واجب ہو گا۔ خواہ دونوں کو ہو جائے یا صرف شوہر کو ہو بیوی کو نہ ہو یا بیوی کو ہو اور شوہر کو نہ۔ الغرض جسے بھی انزال ہو گیا اسے غسل کرنا ہو گا۔

غسل واجب ہونے کی دو صورتں ہیں: ایک انزال ہونا خواہ کسی سبب سے ہو۔ دوسرے مباشرت سے یعنی شرمگاہ میں دخول سے خواہ انزال ہو یا نہ ہو ۔۔ اور یہ دوسرا مسئلہ کہ دخول ہو مگر انزال نہ ہو، اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے، یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اکثر لوگ اس سے جاہل ہیں۔

اس مناسبت سے یہ بتا دینا بھی نہایت اہم ہے کہ عورت پر جب غسل جنابت واجب ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنا سارا بدن، اپنے بال اور بالوں کے نیچے تک کو خوب دھوئے اور کوئی جگہ نہ چھوڑے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا...٦﴾... سورة المائدة

’’اور جب تم جنابت کی حالت میں ہو تو خوب طہارت حاصل کرو (یعنی اچھی طرح غسل کرو)۔‘‘

تو عورت پر واجب ہے کہ اپنا سارا جسم خوب دھوئے۔ [1]لیکن اگر جسم پر کوئی زخم ہو اور اس پر پٹی بندھی ہو یا مثلا کوئی پلستر وغیرہ ہو تو اس صورت میں اس پر پانی سے مسح کر لینا کافی ہو گا اور تیمم کی کوئی ضرورت نہ ہو گی اور یہ مسح اس حالت میں غسل کے قائم مقام ہو گا۔


[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں جنابت میں مینڈھیاں کھولنا ضروری نہیں ہے، صرف تین لپ پانی سر پر ڈال کر بالوں کو اچھی طرح ہلائے، یہی کافی ہے۔ فضیلۃ الشیخ نے بھی پیچھے ایسے ہی لکھا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 203

محدث فتویٰ

تبصرے