السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طہر شروع ہونے کے بعد جو کسی عورت کو زرد یا میلا سا پانی آ جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتوں کے مسائل حیض کی مشکلات ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہ ہو۔ اور اس کا بنیادی سبب مانع حمل اور مانع حیض گولیاں وغیرہ ہیں۔ پہلے لوگوں کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ عورتوں کی مشکلات شروع ہی سے موجود ہیں، لیکن اب جو صورت حال ہے انتہائی حیران کن اور قابل افسوس ہے۔
بہرحال عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ حیض کے بعد جب عورت یقینی طور پر پاک صاف ہو جائے اور پاک صاف ہونے یعنی طہر سے مراد یہ ہے کہ عورت کے جسم سے روئی کا پھایہ بالکل صاف سفید نکلے، اور یہ سفید پانی ہوتا ہے جسے کہ عورتیں پہنچانتی ہیں۔ تو اس کے بعد اگر کوئی میلا پانی آ جائے یا زرد رنگ کا ہو یا کوئی نقطہ لگ جائے یا کوئی رطوبت نکل آئے تو یہ حیض نہیں ہوتا اور نہ ہی نماز روزے وغیرہ سے روکتا ہے کیونکہ یہ حیض نہیں ہوتا۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ’’ہم زرد رنگ کی رطوبت یا میلے پانی کو کچھ نہ سمجھا کرتی تھیں۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب الصفرۃ والکورۃ فی غیر ایام الحیض، حدیث: 326۔ سنن ابن ماجہ: کتاب الطھارۃ و سننھا، باب ما جاء فی الحائض تری بعد الطھر الصفرۃ والکدرۃ، حدیث: 647) اور سنن ابی داؤد میں ہے کہ ’’طہر کے بعد‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب فی المراۃ تری الصفرۃ والکدرۃ بعد الطھر، حدیث: 307۔ المستدرک للحاکم: 282/1، حدیث: 621) (ان رطوبات کو کچھ نہ سمجھتی تھیں)۔ اور سند اس کی صحیح ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے بعد اس قسم کی چیزوں کا ظاہر ہونا کسی عورت کے لیے کسی تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ اسے نماز روزے وغیرہ سے روکتی ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ عورت حیض کے آخر میں جلدی کرنے سے پرہیز کرے حتیٰ کہ اسے طہر کا یقین ہو جائے۔ کیونکہ بعض عورتیں خون کم ہونے کے بعد جلدی کرتی ہیں اور طہر کا یقین کیے بغیر غسل کر لیتی ہیں۔ صحابہ کی بیویاں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بعض اوقات اپنے روئی کے پھائے بھیجتی تھیں، ان میں خون کا کچھ اثر بھی ہوتا، تو وہ انہیں کہتیں کہ: "جلدی مت کرو حتیٰ کہ پھائے کو سفید دیکھو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب اقبال المحیض وادبارہ (ترجمۃ الباب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مذکور ہے) السنن الکبری للبیہقی: 335/1، حدیث: 1486)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب