السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مانع حیض گولیوں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مانع حیض گولیاں اگر صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہوں تو ان کے استعمال کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کا شوہر اس کی اجازت دے۔ تاہم جہاں تک میری معلومات ہیں اس کا استعمال عورت کے لیے نقصان سے خالی نہیں۔ کیونکہ خون حیض کا جسم سے خارج ہونا ایک فطری عمل ہے، اگر اس فطری خارج ہونے والی چیز کو اس کے وقت پر خارج ہونے سے روک دیا جائے تو یقینا اس سے صحت پر برا اثر پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود عورت کی اپنی ماہانہ عادت بگڑ جائے گی، اور پھر یہ نماز روزے کے سلسلے میں الجھن اور شک میں پڑی رہے گی، اور ازدواجی تعلقات میں شوہر کے لیے پریشانی ہو گی۔ لہذا میں ایسی گولیوں کے استعمال کو اگرچہ حرام تو نہیں کہتا مگر مذکورہ اسباب کے تحت پسند بھی نہیں کرتا ہوں۔
بلکہ چاہئے کہ عورت کو اللہ عزوجل کی تقدیر اور نظام پر راضی خوشی رہنا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئے اور دیکھا کہ وہ آبدیدہ ہیں، جبکہ وہ عمرے کا احرام باندھ چکی تھیں، آپ نے پوچھا کہ کیا ہوا، کہیں ایام تو شرع نہیں ہو گئے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب کیف کان بدء الحیض، حدیث: 294۔ صحیح مسل: کتاب الحج، باب بیان وجوہ الاحرام۔۔۔، حدیث: 1211) الغرض عورت کو صبر سے کام لینا چاہئے اور اس میں بھی اللہ سے اجر کی امید رکھنی چاہئے۔ اگر اسے نماز روزے سے رکاوٹ ہو گئی ہو تو ذکر اذکار کا دروازہ کھلا ہے، اسے چاہئے کہ تسبیح و تہلیل اور دیگر اذکار میں محنت کرے، صدقہ دے، اپنے قول و فعل سے لوگوں کے ساتھ احسان کرے، اور یہ بڑی فضیلت کے کام ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب