سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) جسم کے جن حصوں کی صفائی لازم ہے

  • 17756
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 830

سوال

(149) جسم کے جن حصوں کی صفائی لازم ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بغلوں کے بال دور کرنا، ناخن تراشنا، مونچھیں کتروانا اور زیر ناف کی صفائی کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بغلوں کے بال دور کرنا، ناخن کاٹنا، مونچھوں کا مونڈنا اور زیر ناف کی صفائی ان فطری اعمال میں سے ہیں جن (کا اہتمام کرنے) پر اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا ہے اور سابقہ نازل کردہ تمام شریعتوں میں یہ تعلیمات آئی ہیں اور ہر عقل مند انسان بشرطیکہ اس کا مزاج اور طبیعت سلیم اور محفوظ ہو ۔۔ ان اعمال کو پسند کرتا ہے اور تمام نازل کردہ شریعتوں نے ان کو اسی طرح برقرار رکھا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کے لیے چالیس دن کی مدت متعین فرمائی ہے۔ لہذا انہیں اس سے زیادہ دن نہیں چھوڑنا چاہئے اور ہماری بات بھی یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے جو یہ مدت متعین فرمائی ہے یہ زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ اس دوران میں اور اس مدت سے کم میں اگر ضرورت محسوس ہو تو ان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلا ناخن بڑھ گئے، بغلوں یا مونچھوں کے بال زیادہ لمبے ہو گئے تو انہیں چالیس دن سے پہلے بھی اتارا جا سکتا ہے۔ چالیس دن کی مدت زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔

اور تعجب کی بات ہے کہ بعض جاہل اپنے ناخنوں کو ایک مدت تک کاٹتے ہی نہیں حتیٰ کہ وہ بہت لمبے ہو جاتے ہیں اور ان میں میل کچیل جمع ہوتی رہتی ہے۔ ان لوگوں کی فطرت مسخ گئی ہوتی ہے۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی مقرر کی ہوئی مدت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ معلوم نہیں، انہیں یہ بات کس طرح اچھی لگتی ہے حالانکہ اس میں حفظان صحت ہی نہیں، شریعت کی مخالفت بھی ہے۔ اور کئی لوگ تو اپنی چھنگلیا یا انگشت شہادت کا کوئی ایک ناخن بڑھا لیتے ہیں اور یہ بھی سراسر خطا اور جہالت ہے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ وہی عادات اپنائیں اور وہی راہ اختیار کریں جو ان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دی ہے کہ فطری تقاضے کے تحت اپنے ناخن، مونھیں، زیر ناف اور بغلوں کی صفائی کرتے رہا کریں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 181

محدث فتویٰ

تبصرے