سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) وضو کا طریقہ

  • 17707
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 746

سوال

(100) وضو کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کا کیا طریقہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی اعتبار سے وضو کی دو صورتیں ہیں۔ ایک جو لازمی اور واجب ہے کہ اس کے بغیر وضو ہو ہی نہیں سکتا، اللہ عزوجل کے اس فرمان میں مذکور ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کو دھو لیا کرو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک، اور اپنے سروں کا مسح کر لیا کرو، اور اپنے پاؤں کو بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔"

اس میں چہرے کا دھونا ایک بار ہے، کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی اس میں شامل ہے، اور ہاتھوں کو ایک بار دھونا ہے انگلیوں سے لے کر کہنیوں تک۔ اور ضروری ہے کہ وضو کرنے والا خیال رکھے کہ اپنے ہاتھوں کو کلائیوں اور کہنیوں سمیت دھوئے۔ کچھ لوگ غفلت کرتے ہیں اور وہ صرف اپنی کلائیوں کو دھوتے ہیں، تو یہ غلطی ہے۔ پھر ایک بار سر کا مسح کرے، اور کان بھی سر کا حصہ ہیں۔ پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک ایک بار دھو لے۔ یہ وہ واجبی طریقہ ہے جس سے کوئی چارہ نہیں۔

دوسری صورت وضو کی جو مستحب اور پسندیدہ ہے وہ یہ کہ وضو شروع کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھے، دونوں ہاتھ دھوئے تین بار، پھر کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے تین بار، تین چلووں کے ساتھ۔ پھر چہرہ دھوئے تین بار۔ پھر کلائیاں دھوئے کہنیوں تک تین بار، پہلے داہنی پھر بائیں۔ پھر ایک بار سر کا مسح کرے، وہ یوں کہ اپنے ہاتھ گیلے کر لے اور انہیں شروع سر سے لے کر آخر تک پھیرتا چلا جائے اور پھر پیچھے سے آگے کو لے آئے، پھر شہادت کی انگلیوں کو کانوں کے سوراخوں میں (اور ان کے بٹوں میں) گھمائے اور پھر اپنے انگوٹھوں کو کانوں کے باہر پھیرے۔ پھر ٹخنوں تک پاؤں دھوئے، تین تین بار، پہلے دایاں پھر بایاں اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله، اللهم اجعلنى من التوابين واجعلنى من المطهرين

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا اور یکتا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔  اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں سے بنا دے۔"

چنانچہ بندہ جب یہ کرے گا اور پڑھے گا تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے۔[1] جس سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔ یہ صحیح حدیث ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ (محمد بن صالح عثیمین)


[1] یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ترمذی میں مذکور ہے، سنن الترمذی، کتاب الطھارۃ، باب فی ما یقال بعد الوضوء، حدیث: 55 "" ۔۔۔ سے پہلے الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم میں ہے۔ صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، حدیث: 234

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 150

محدث فتویٰ

تبصرے