السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ وہ اسلامی اور دینی ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں فلموں اور ڈراموں کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں:
1۔ اولا یہ کفار کی تقلید اور مشابہت ہے اور کافروں کا طور طریق انہیں ہی زیب دیتا ہے نہ کہ مسلمانوں کو۔ اور کفار یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسے ذرائع کی اشد ضرورت ہے جو انہیں نیکی کے کاموں پر برانگیختہ کریں اور ابھاریں۔ ان کے پاس ایسی کوئی شریعت نہیں ہے جیسی کہ ہمارے پاس ہے۔ والحمدللہ۔ ہماری یہ شریعت نیکی اور خیر سے مالامال ہے۔ قرآن کریم کی ایک ہی آیت بے شمار فلموں اور ڈراموں سے بڑھ کر ہے اور ایک صاحب ایمان کو ان لغویات سے مستغنی اور بے پرواہ کر دیتی ہے۔
تو جو امت حلال و حرام کو نہ جانتی ہو، ہم ان سے اس کا طور طریقہ، چلن اور ثقافت کیونکر لے سکتے ہیں؟
یہ ذرائع ان ہی کے لائق ہیں، یہ ہمیں قطعا زیب نہیں دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان سے بڑھ کر خیر موجود ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ایک صحیفہ دیکھا، اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ کہا کہ یہ توراۃ کا ایک حصہ ہے جو مجھے ایک یہودی نے لکھ کر دیا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’کیا تم (ابھی سے) مضطرب اور ادھر اُدھر متوجہ ہونے لگے ہو جیسے کہ یہودونصاریٰ مضطرب ہو گئے ہیں؟ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل: 378/3، حدیث: 15195۔ شعب الایمان للبیہقی: 199/1، حدیث: 176۔)
2۔ ان فلموں اور ڈراموں میں جھوٹ کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے جس کا تاریخ اسلامی یا سیرت میں کوئی اصل نہیں ہوتا۔
3۔ ان چیزوں میں مرد، عورتوں کا اور عورتیں مردوں کا روپ بھی دھار لیتی ہیں۔ اس تشبہ کے ساتھ ان کا آپس میں غیر شرعی اختلاف بھی ہوتا ہے۔
اور سیرت میں یہ صحیح واقعہ موجود ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک درخت دیکھا، جس کے ساتھ مشرک لوگ (تبرک کے طور) اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے۔ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی کوئی ذاتِ انواط مقرر کر دیجیے جیسے کہ ان کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اکبر! یہی ان کی پیروی ہے! تم نے تو وہی بات کہہ دی ہے جو قوم موسیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ: "ہمیں بھی ایک الٰہ بنا دیجیے جیسے کہ ان کاالٰہ ہے‘‘(الاعراف: 138) (صحیح ابن حبان: 15/94، حدیث: 6702، صحیح علی شرط مسلم۔ مسند احمد بن حنبل: 5/218، حدیث: 21947۔)
خیال رہے کہ قوم موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ بالا مطالبہ الٰہ اور صحابہ رسول کے مطالبہ ذات انواط میں بڑا فرق ہے۔ یہودیوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں کوئی بت بنا دیں جس کی ہم عبادت کیا کریں۔ جبکہ صحابہ رسول نے صرف اس قدر کہا تھا کہ ہمارے لیے کوئی درخت مقرر کر دیں (ذات انواط کی طرح کا) جس پر ہم اپنا اسلحہ لٹکا کر برکت حاصل کر لیا کریں جیسے کہ ان مشرکین کا ہے۔ تو اتنی بات کو جس میں کہ صرف لفظی مشابہت پائی گئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت برا جانا اور اس کا انکار کر دیا، اور مسلمانوں کے لیے کفار کی مشابہت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔
کفار ان ڈراموں وغیرہ کے درپے کیوں ہوتے ہیں ۔۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس روحانی تسکین اور روح کی غذا کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم مسلمانوں کے پاس ہے۔ سو ہمارا ان سے اس قسم کی چیزیں لینا بہت خطرناک ہے۔ تاہم دیگر آلات اور وسائل سفر وغیرہ لینا جیسے کہ گاڑیاں ہیں یا جہاز وغیرہ تو یہ دوسری چیزیں ہیں جو (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) (سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرۃ، حدیث 4031، صحیح۔) (جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہو گا) کی وعید میں نہیں آتیں۔
اور اگر ٹیلی ویژن میں کوئی ضروری چیزیں دکھلائی جائیں، تویہ ایک آلہ ہے اور جائز وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ مگر جب اس میں ہر قسم کی بھلی بری چیزیں پیش کی جانےے لگی ہیں، تو مسئلہ مختلف ہے۔ اور ہمیں مفروضوں پر نہیں رہنا چاہئے جبکہ صورت حال واقعی بڑی گھمبیر ہے۔ اور کیا وجہ ہے کہ سوال اس طرح کیوں نہیں کیا جاتا کہ اس ٹیلی ویژن کا کیا حکم ہے جو اب ہم دنیائے عرب میں دیکھتے ہیں؟ یہ تو کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ علمی اجتماعات کا کیا حکم ہے؟ ہمارے لوگ اس چیز کا سوال تو کرتے ہیں جو جائز ہوتی ہے، اور اس سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جو یقینی طور پر ناجائز ہوتی ہے۔ کیا بھلا کسی ادارے نے ٹیلی ویژن پر کسی عالم کو صرف اس غرض سے پیش کیا ہے جو مسلمانوں کو صرف مسنون مناسک حج کی تعلیم دے، یا اس سے کم تر ۔۔ کسی عالم کو پیش کیا گیا ہے کہ لوگوں کو مسنون طریقہ نماز دکھلائے تاکہ لوگ اس سے علمی فائدہ حاصل کریں؟
کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے جو مسلمانوں کے لیے یقینی طور پر مفید ہیں بلکہ اس کے برعکس ایسی ویسی باتیں پوچھتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب