السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تعویذات کا لکھنا، قرآنی ہوں یا غیر قرآنی، اور ان کا گردن میں لٹکانا شرک ہے یا نہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (إن الرقى والتمائم والتولة شرك) (سنن ابى داؤد، كتاب الطب، باب فى تعليق التمائم، حديث 3883۔ صحيح سنن ابن ماجه، كتاب الطب، باب تعليق التمائم، حديث 3530 صحيح۔ المستدرك للحاكم: 241/4، حديث 7505۔ مسند احمد بن حنبل: 381/1، حديث: 3615۔) (بلاشبہ دم جھاڑ، لٹکائے جانے والے گنڈے اور محبت کے گنڈے شرگ ہیں) (اسے احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور صحیح کہا)۔ نیز احمد، ابویعلیٰ اور حاکم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کوئی گنڈہ لٹکایا، اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے، جس نے کوئی کوڑی باندھی اللہ اس کا دکھ دور نہ کرے۔‘‘( المستدرك للحاكم: 4/240، حديث: 7501، صحيح الاسناد۔ صحيح ابن حبان: 750/13 حديث: 6086۔ مسند احمد بن حنبل: 154/4، حديث: 17440۔ مسند ابى يعلى: 3/295، حديث:1759۔) امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا کہ "جس نے کوئی تمیمہ (گنڈہ) لٹکایا، اس نے شرک کیا۔"( مسند احمد بن حنبل: 156/4۔ حديث: 17458، اسناده قوى۔) اور اس معنیٰ کی احادیث بہت زیادہ ہیں۔
تمیمہ کا لفظ ہر اس چیز پر استعمال ہوتا ہے جو بچوں یا بڑوں وغیرہ پر بھی اس غرض سے لٹکائی جاتی ہے کہ نظر بد، جن یا بیماری وغیرہ سے بچاؤ رہے۔ (عرب میں) کچھ لوگ انہیں جامعہ بھی کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جن میں شیاطین کے نام لکھے جاتے ہیں یا ہڈیاں، منکے، میخیں لٹکائی جاتی ہیں ، یا کچھ طلسمات ہوتے ہیں یعنی حروف تہجی وغیرہ۔ اس قسم کی چیزوں کے حرام ہونے میں قطعا کوئی شک نہیں۔ اور اس کے بہت سے دلائل ثابت ہیں اور ان احادیث کی روشنی میں یہ عمل شرک اصغر شمار ہوتا ہے۔ اور اگر ان کے متعلق یہ عقیدہ باندھ لے کہ یہ چیزیں ہی براہ راست، اللہ کی مشیت کے بغیر، ازخود محافظ ہیں یا مرض دور کرتی ہیں یا کسی آفت کو ٹالتی ہیں تو یہ شرک اکبر ہو گا۔
دوسری قسم وہ ہے جو لوگ لٹکاتے ہیں قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں وغیرہ، تو ان میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ بعض انہیں جائز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس رُقیہ (دم) کی ایک صورت ہے جو جائز ہے۔ اور کچھ اہل علم ان سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حرام ہیں۔ ان کے پاس دو دلیلیں ہیں۔ ایک وہ عام احادیث جن میں تمائم سے روکا گیا اور ان کے شرک ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ تو ضروری ہے کہ کچھ جواز اور خصوصیت کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود ہو اور وہ کہیں نہیں ہے۔
اور دَم جھاڑ کے بارے میں صحیح احادیث میں آیا ہے کہ اگر وہ قرآنی آیات اور جائز دعاؤں کے ذریعے سے ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں اور ضروری ہے کہ ایسی زبان میں ہوں جو سمجھ میں آتی ہو، اور پھر ان الفاظ پر اعتماد نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ یہ ایک سبب محض ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا بأس بالرقى ما لم تكن شركا (صحيح مسلم، كتاب السلام، باب لا باس بالرقى۔۔۔، حديث 2200۔ المستدرك للحاكم: 236/4، حديث 7485، صحيح۔)
’’ان دم جھاڑ میں کوئی حرج نہیں جب تک شرک نہ ہوں۔‘‘
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کچھ صحابہ کرام نے بھی دم کیا ہے۔ اور فرمایا کہ
لا رقية إلا من عين أو حمة (صحيح بخارى، كتاب الطب، باب من اكتوى او كوى غيره ۔۔۔، حديث 5378۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة، حديث 220۔ مسند احمد بن حنبل: 271/1، حديث: 2448۔ اسناده صحيح۔)
’’دم جھاڑ بدنظری سے ہے یا ڈنک مارنے سے۔‘‘
اور اس معنی میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔ تمائم (جو لٹکائے جاتے ہیں) ان میں سے استثناء کی کوئی ایک بھی حدیث نہیں ہے، تو عمومی دلائل کی روشنی میں ان کو حرام کہنا واجب ہے۔
دوسری دلیل: شرک کے ذرائع کا بند کرنا۔ اور یہ شریعت اسلامیہ کا ایک اہم ترین اصول ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر ہم قرآنی آیات اور مباح دعاؤں کے لکھنے اور لٹکانے کو جائز کہیں گے تو شرک کا دروازہ کھل جائے گا اور جائز تمیمے ممنوع تمائم کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں گے، اور ان میں فرق کرنا بڑی دقت نظری ہی سے ممکن ہو سکے گا، لہذا یہ دروازہ بند کر دینا ہی لازمی ہے اور جو کام شرک تک پہنچانے والا ہو اسے مقفل کرنا واجب ہے۔ اور دلائل کی روشنی میں یہی قول صحیح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب