السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی دوسری اذان کا اجرا فرمایا کیا یہ درست ہے کیا واقعتا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس اذان کو بدعت قرار دیا تھا ؟ حوالہ ارسال کر دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :
«وَرَوَی ابْنُ اَبِیْ شَيْبَةَ مِنْ طَرِيْقِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَذَانُ الْاَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ ۔ فَيَحْتَمِلُ أَنْ يَکُوْنَ قَالَ ذٰلِکَ عَلٰی سَبِيْلِ الْاِنْکَارِ وَيَحْتَمِلُ أَنَّه يُرِيْدُ أَنَّه لَمْ يَکُنْ فِیْ زَمَنِ النَّبِیِّﷺوَکُلُّ مَا لَمْ يَکُنْ فِیْ زَمَنِه يُسَمّٰی بِدْعَةً الخ»(فتح البارى ج2 ص394)
«قَالَ ابْنُ اَبیْ شَيْبَةَ فِیْ مُصَنَّفِه قَالَ حَدَّثَنَا وَکِيْعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ قَالَ : سَأَلْتُ نَافِعًا مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ اَلْاَذَانُ الْاَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ ؟ فَقَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ بِدْعَةٌ ۱هـ ج۲ص۱۴۵ وَالْاِحْتِمَالُ الْاَوَّلُ مِنْ اِحْتمَالِیَ الْحَافِظِ هُوَ الْاَرْجَحُ ۔ هٰذَا مَا عندی واﷲ اعلم‘‘
’’ابن ابی شیبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے طریق سے بیان کیا ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے پس اس بات کا احتمال ہے کہ اس نے یہ علی سبیل الانکار کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ مراد لیتا ہو کہ یہ نبیﷺ کے زمانہ میں نہیں تھی اور ہر وہ چیز جو نبیﷺ کے زمانہ میں نہ ہو اس کا نام بدعت ہے۔
ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں کہا ہے ہم کو وکیع نے بیان کیا ہے اس نے کہا ہم کو ہشام بن غاز نے بیان کیا اس نے کہا میں نے ابن عمر کے آزاد کردہ غلام نافع سے پوچھا کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے اس نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ یہ بدعت ہے اور حافظ کے دو احتمالوں سے پہلا راحج ہے‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب