سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) شہادتِ توحید و رسالت سے مراد؟

  • 17647
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3881

سوال

(40) شہادتِ توحید و رسالت سے مراد؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شہادتِ توحید و رسالت سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شہادت توحید و رسالت سے مراد اللہ عزوجل کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اقرار و اظہار کرنا ہے اور اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں " اشهد ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله " یہ الفاظ اسلام کی مفتاح اور چابی ہیں۔ ان کا اقرار و اظہار کیے بغیر کسی کے لیے دین اسلام میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے صحابی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ تمہاری سب سے پہلی دعوت یہی ہونی چاہئے کہ یہ لوگ اللہ عزوجل کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار و اظہار کریں۔( صحيح بخارى، كتاب الزكاة، باب لا توخذ كرائم اموال الناس فى الصدقة، حديث 1389۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب الدعاء الى الشهادتين و شرائع الاسلام، حديث 19۔)

اس شہادت میں پہلا جملہ " اشهد ان لا اله الا الله " میں یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور زبان سے اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ ایک اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اس جملہ میں نفی اور اثبات میں دو باتیں ہیں۔ نفی میں ہے لا الٰہ اور اثبات میں ہے الا اللہ۔ (عربی گرائمر کے انداز میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ "اللہ" لا نفی جنس کی خبر جو محذوف ہے، سے بدل ہے۔ اور اصل عبارت یوں بنتی ہے " لا اله حقا الا الله یعنی نہیں ہے کوئی معبود برحق، سوائے اللہ کے)۔ زبان کا یہ اقرار دل کے یقین و اعتراف پر مرتب ہونا ہے، جس میں خالص ایک اکیلے اللہ کو عبادت کا مستحق اور اس کے علاوہ باقی سب کی عبادت کی نفی کا اظہار ہے۔

اس جملہ مذکورہ بالا تفصیل و توضیح سے کہ اصل جملہ " لا اله حقا الا الله " ہے، وہ الجھن دور ہو جاتی ہے جو بہت سے لوگ پیش کرتے ہیں کہ یہ بات "اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں" کس طرح صحیح ہو سکتی ہے حالانکہ دنیا میں بے شمار معبود ہیں جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہے، اور اللہ نے بھی ان کو آلہہ کہا ہے اور ان کے عابدین بھی ان کو اپنا الٰہ باور کراتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَما أَغنَت عَنهُم ءالِهَتُهُمُ الَّتى يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ مِن شَىءٍ لَمّا جاءَ أَمرُ رَبِّكَ ... ﴿١٠١﴾... سورة هود

’’پھر کچھ کام نہ آئے ان کے وہ آلہہ (معبود) کسی چیز میں جنہیں وہ اللہ کے علاوہ پکارتے تھے، جس وقت تیرے رب کا حکم آ پہنچا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلا تَجعَل مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ... ﴿٣٩﴾... سورةالإسراء

’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ (معبود) مت بنا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ ...﴿٨٨﴾... سورة القصص

’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ مت پکار۔‘‘

اور فرمایا:

﴿لَن نَدعُوَا۟ مِن دونِهِ إِلـٰهًا ... ﴿١٤﴾... سورةالكهف

’’غار والوں نے کہا ۔۔ اور ہم ہرگز نہیں پکاریں گے اس کے علاوہ کسی اور الٰہ کو۔‘‘

تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہیں حالانکہ ثابت ہیں؟ اور تمام انبیاء و رسل نے غیراللہ کی الوہیت کی نفی کی ہے، یہ اپنی قوموں سے کہتے رہے ہیں:

﴿اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلـٰهٍ غَيرُهُ...﴿٥٩﴾... سورةالاعراف

’’اللہ ہی کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔‘‘

جواب اس اشکال کا یہی ہے کہ لا کی خبر پوشیدہ ہے یعنی لا اله حقا الا الله (یعنی نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے)۔ بلاشبہ اللہ کے علاوہ بے شمار آلہہ ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے، مگر یہ سب باطل ہیں، ان میں سے کوئی بھی حق اور سچ نہیں ہے، اور نہ انہیں کسی طرح کا حقِ عبودیت حاصل ہے۔ اور اس کی دلیل سورہ لقمان کی یہ آیت مبارکہ ہے:

﴿ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ البـٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ ﴿٣٠﴾... سورة لقمان

’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اللہ کے علاوہ جس کسی کو وہ پکارتے ہیں تو وہ جھوٹ اور باطل ہے اور بلاشبہ اللہ ہی ہے سب سے اوپر بڑا۔‘‘

مذکورہ بالا کی دلیل قرآن مجید میں سورۃ النجم وغیرہ میں موجود ہے، فرمایا:

﴿أَفَرَءَيتُمُ اللّـٰتَ وَالعُزّىٰ ﴿١٩ وَمَنو‌ٰةَ الثّالِثَةَ الأُخرىٰ ﴿٢٠ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنثىٰ ﴿٢١ تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ ﴿٢٢ إِن هِىَ إِلّا أَسماءٌ سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـٰنٍ ...﴿٢٣﴾... سورةالنجم

’’کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور مناۃ تیسرے پچھلے کو، کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی جیل کے ساتھیوں سے یہی فرمایا تھا:

﴿ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـٰنٍ ...﴿٤٠﴾... سورة يوسف

’’اللہ کے سوا جن کی تم پوجا کر رہے ہو وہ سب محض نام ہی ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔‘‘

الغرض " لا اله الا الله " کے معنیٰ ہیں "نہیں کوئی معبود سوائے اللہ عزوجل کے۔" اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کی عبادت باطل ہے۔ سچی عبادت اور حق عبادت صرف اور صرف اللہ عزوجل کی ہے۔

اور " وان محمدا رسول الله " (کے معنیٰ ہیں کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں)۔ اس میں بھی دل کا یقین اور پھر زبان کا اقرار ہے کہ محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی، اللہ عزوجل کی طرف سے جنوں اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿قُل يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ﴿١٥٨﴾... سورةالاعراف

’’آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی اُمی پر جو اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آ جاؤ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿تَبارَكَ الَّذى نَزَّلَ الفُرقانَ عَلىٰ عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعـٰلَمينَ نَذيرًا ﴿١﴾... سورة الفرقان

’’برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن) نازل کیا تاکہ جہان والوں کو ڈرائے۔‘‘

اس شہادت کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کی تصدیق کرے جن کی آپ نے خبر دی ہے، ان تمام احکام کو قبول کرے جن کا آپ نے حکم دیا ہے اور ان تمام امور سے باز رہے جن سے بچنے کا آپ نے حکم دیا ہے اور اللہ کی عبادت بھی اسی طرح کرے جیسے کہ آپ نے فرمایا ہے۔ اور اس شہادت کا یہ تقاضا بھی ہے کہ آپ کے بارے میں (رسالت سے بڑھ کر) اس قسم کا عقیدہ نہ رکھا جائے کہ آپ کو ربوبیت کا کوئی حق حاصل ہے، یا کائنات کے نظام میں آپ کا کوئی دخل ہے، یا عبادت میں آپ کا کوئی استحقاق ہے۔ بلکہ اسی قدر عقیدہ رکھا جائے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں، عبادت کے مستحق نہیں ہیں، اللہ کے رسول ہیں، اس میں کسی طرح آپ کی تکذیب نہ کی جائے، آپ اپنے لیے یا کسی اور کے لیے کسی نفع یا نقصان کا حق نہیں رکھتے مگر اتنا ہی جو اللہ چاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ...﴿٥٠﴾... سورة الانعام

’’اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ یہ کہتا ہوں کہ فرشتہ ہوں، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل إِنّى لا أَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا رَشَدًا ﴿٢١ قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا ﴿٢٢﴾... سورة الجن

’’کہہ دیجیے کہ میں تمہارے کسی نقصان یا نفع کا اختیار نہیں رکھتا۔ کہہ دیجیے مجھے ہرگز ہرگز کوئی اللہ سے نہیں بچا سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ﴿١٨٨﴾... سورة الاعراف

’’آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو۔ اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت بھی مجھ پر واقع نہ ہوتی۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (محمد بن صالح عثیمین)

شرک اور اس کی اقسام

توحید کی ضد شرک ہے اور اس کی تین مگر حقیقت میں دو ہی قسمیں ہیں، شرک اکبر اور شرک اصغر:

شرک اکبر:۔۔ یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی کی جائے یا عبادت کا کچھ حصہ غیراللہ کی طرف منتقل کر دیا جائے اور اس میں یہ بھی ہے کہ دین کے وہ لازمی اور معروف اعمال جو اللہ نے فرض اور واجب قرار دئیے ہیں، ان کا انکار کر دیا جائے جیسے کہ نماز اور روزہ رمضان وغیرہ، یا جو باتیں حرام کی ہیں اور ان کا حرام ہونا واضح اور معروف ہے، ان کا انکار کر دیا جائے مثلا زنا یا شراب وغیرہ یا اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کو حلال مانا جائے (اگر کسی وقت سہو اور غفلت سے کسی رئیس، وزیر یا عالم کی کوئی عام سی اطاعت ہو جائے جس میں اللہ کے دین کی مخالفت ہو تو الگ بات ہے)

الغرض ہر وہ عمل جس میں غیراللہ کی عبادت ہو مثلا اولیاء کو پکارنا، ان سے مدد حاصل کرنا، ان کے نام کی نذر ماننا یا اللہ کے حرام کیے ہوئے اعمال کو حلال سمجھنا یا جو واجب کیا ہے اس کا انکار کرنا مثلا یہ کہنا اور سمجھنا کہ نماز فرض نہیں ہے، روزہ واجب نہیں ہے، طاقت ہونے کے باوجود حج واجب نہیں ہے، زکوٰۃ فرض نہیں ہے یا اس قسم کے اور عمل، اور ان کے متعلق یہ کہنا کہ ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے وغیرہ تو سب باتیں کفر اکبر اور شرک اکبر ہیں کیونکہ ان میں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب ہے۔

اور ایسے ہی اگر کوئی اللہ کے حرام کردہ کو حلال جانے جبکہ ان کا حرام ہونا دین میں معروف اور واضح ہو مثلا زنا، شراب، ماں باپ کی نافرمانی، لوٹ مار، اغلام بازی یا سور وغیرہ ایسے امور ہیں کہ ان کا دین میں حرام ہونا بالکل واضح ہے، نصوص شرعیہ اور اجماع امت سے ثابت ہے تو اگر کوئی ان کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھے گا تو اس کے کافر ہونے پر سب علماء کا اجماع ہے اور اس کا حکم شرک اکبر کے مرتکب مشرکین جیسا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی کیفیت سے محفوظ رکھے۔

اسی طرح جو شخص دین کا مذاق اڑائے، اس کے کسی حکم کا ٹھٹھا کرے تو وہ بھی کفر اکبر کا مرتکب ہوتا ہے جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ...﴿٦٦﴾... سورة التوبة

’’آپ ان منافقین سے کہہ دیجیے کیا بھلا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو؟ کسی عذر معذرت کی ضرورت نہیں، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘

ایسے ہی اگر کوئی چیز کی تحقیر کرے جسے اللہ نے معظم قرار دیا ہے، اور اسے معمولی جانے تو یہ بھی کفر ہے مثلا قرآن مجید کی اہانت کرنا، اس پر پیشاب کرنا، اس پر پاؤں رکھنا یا بیٹھنا وغیرہ۔ جب یہ عمل اس کی اہانت و تحقیر سے ہوں تو بالاجماع کفر ہے کیونکہ اس طرح وہ انسان اللہ عزوجل کی تحقیر و اہانت کرتا ہے کیونکہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے تو جو اس کی اہانت کرے اس نے اللہ کی اہانت کی۔

یہ مسائل علمائے کرام نے اپنی کتب فقہ میں ’’باب حکم المرتد‘‘ میں درج کیے ہیں۔ معروف چاروں مذاہب کی کتب میں حکم المرتد موجود ہے اور اس میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ کفر اور گمراہی کی تمام نوعیات کا بیان کیا ہے، اور ان کتب کے یہ حصے انتہائی توجہ اور اہتمام کے ساتھ مطالعہ کے لائق ہیں بالخصوص اس دور میں جب کہ ارتداد کی کئی صورتیں سامنے آئی ہیں، اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ مسائل خلط ملط ہوئے جاتے ہیں۔ جو شخص ان ابواب کا دقت نظر سے مطالعہ کرے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ کن کن صورتوں سے عہد اسلام ٹوٹ جاتا ہے، اور کن کن باتوں سے ایک مسلمان مرتد ہو جاتا ہے اور کفروضلالت کی کیا کیا انواع ہیں۔

دوسری قسم، شرک اصغر:۔۔ وہ اعمال ہیں جنہیں احادیث میں شرک کہا گیا ہے مگر یہ شرک اکبر کے درجہ کو نہیں پہنچتے، اسی لیے ان کو شرک اصغر کہتے ہیں مثلا ریاء (دکھلاوا کرنا) اور شہرہ (لوگوں میں شہرت کے لیے کوئی کام کرنا)۔ مثلا اگر کوئی لوگوں کو دکھلانے اور شہرت کے لیے قرآن پڑھے، دکھلاوے کی نماز پڑھے، یا دکھلاوے کے لیے دعوت و تبلیغ کا کام کرے وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’مجھے تم لوگوں پر سب سے زیادہ جس چیز کا اندیشہ ہے وہ شرک اصغر ہے۔’’آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ ریا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ایسے دکھلاوے کے عمل کرنے والوں سے کہے گا: "ان کی طرف جاؤ جن کو دکھلانے کے لیے تم عمل کیا کرتے تھے، جاؤ دیکھو کیا بھلا تمہیں ان کے ہاں سے کوئی بدلہ ملتا ہے؟"( مسند احمد بن حنبل: 5/428، حديث 23680 المعجم الكبير: 4/253، حديث 4302) یہ حدیث امام رحمہ اللہ نے صحیح سند سے حضرت محمود بن لبید اشہلی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ اور امام طبرانی، بیہقی اور دوسرے محدثین نے جناب محمود رضی اللہ عنہ سے بطور مرسل روایت نقل کی ہے اور جناب محمود رضی اللہ عنہ صغیر صحابی ہیں، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنا ہے۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرسلات صحیح اور اہل علم کے ہاں حجت ہوتی ہیں اور بعض محدثین نے ان کے صحیح ہونے پر اجماع بیان کیا ہے۔

بعض اوقات لوگوں کی زبان پر اس طرح کے جملے آ جاتے ہیں ’’جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، یا اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتا، یا یہ چیز اللہ کی طرف سے ہے اور فلاں کی طرف سے‘‘ وغیرہ، یہ سب شرک اصغر میں شمار ہوتے ہیں۔ سنن ابی داود میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یوں مت کہا کرو کہ جو چاہا اللہ نے اور فلاں نے بلکہ یوں کہا کرو جو چاہا اللہ نے پھر فلاں نے۔‘‘ (سنن ابى داؤد، كتاب الادب، باب لا يقال خبثت نفسى، حديث 4980 سنن الكبرى للبيهقى: 3/216 حديث 5601 مسند احمد بن حنبل: 5/384 حديث 23313۔)

اور اسی معنیٰ میں وہ حدیث بھی ہے جو سنن نسائی میں ہے کہ جناب قتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’یہودیوں نے صحابہ کرام سے کہا کہ تم بھی تو شرک کرتے ہو، یوں بولتے ہو: جو چاہا اللہ نے اور محمد نے، اور کہتے ہو: قسم ہے کعبہ کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ جب قسم اٹھانی ہو تو یوں کہا کریں: ’’قسم ہے رب کعبہ کی، اور یوں بولا کریں: جو چاہا اللہ نے پھر محمد نے۔‘‘( سنن النسائى: كتاب الايمان والنذور، باب الحلف بالكعبة، حديث 3773 صحيح۔)

نسائی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو اللہ نے چاہا اور آپ چاہیں، تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا ہے؟ جو چاہا ایک اکیلے اللہ نے۔‘‘( المعجم الكبير للطبرانى: 12/244، حديص 13038، 13039 مسند احمد بن حنبل: 1/283، حديث: 2561)

اور اسی سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی ہے جو آیت کریمہ

﴿ فَلا تَجعَلوا لِلَّهِ أَندادًا وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٢﴾... سورةالبقرة

’’پس نہ بناؤ اللہ کے شریک جبکہ تم جانتے بھی ہو۔‘‘

کی تفسیر میں وارد ہے۔ فرمایا اس سے مراد وہ شرک ہے جو اس امت میں پایا جائے گا جو کسی سیاہ رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی چال سے بھی مدھم اور خفیف ہو اور وہ یوں ہے کہ تو کہے: قسم اللہ کی اور تیری زندگی کی۔ ارے فلاں! قسم ہے میری زندگی کی۔ یا یوں کہے: اگر ہماری یہ کتیا نہ ہوتی تو چور آ گئے ہوتے۔ یا اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو چوروں نے لوٹ لیا ہوتا۔ یا کوئی یوں کہے: جو چاہا اللہ نے اور تو نے۔ یا اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں۔ اس قسم کی گفتگو میں فلاں کا ذکر نہیں ہونا چاہئے، یہ سب اللہ کے ساتھ شریک بنانے والی بات ہے۔" یہ اور اس قسم کی باتیں شرک اصغر میں سے ہیں۔

ایسے ہی غیراللہ کی قسم اٹھانا مثلا کعبہ کی قسم، انبیاء کی قسم، امانت کی قسم، فلاں کی زندگی کی قسم، فلاں کی شرافت یا عظمت کی قسم وغیرہ شرک اصغر ہیں۔ مسند میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، فرمایا کہ: "جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔

( مسند احمد بن حنبل: 1/47، حديث 329، اسناده صحيح على شرط البخارى) امام احمد، ابوداود اور ترمذی نے بسند صحیح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا‘‘( سنن ترمذى، كتاب النذور والايمان باب كراهية الحلف بغير الله، حديث 1535، صحيح المستدرك للحاكم: 4/330 حديث 7814، صحيح على شرط الشيخين. مسند احمد بن حنبل: 2/125 حديث 6072) ۔۔۔ اس روایت میں لفظ او (یعنی یا) ممکن ہے راوی کا شک ہو یا بمعنی و ہو تو مفہوم یہ ہو گا کہ "اس نے کفر کیا اور شرک کیا۔‘‘

صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی قسم اٹھانا چاہے تو اسے چاہئے کہ اللہ کے نام سے قسم اٹھائے ورنہ خاموش رہے۔‘‘( صحيح البخارى، كتاب القدر، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث: 6270۔ صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب النهى عن الحلف بغير الله تعالىٰ، حديث 1464)  اور اس معنیٰ کی احادیث بہت زیادہ ہیں۔

یہ سب صورتیں شرک اصغر کی ہیں اور عین ممکن ہے کہ ایسی بات بولنے والے کے دل میں اگر کھوٹ ہو تو یہ شرک اکبر ہو۔ مثلا اگر کسی کے دل میں یہ بات ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا شیخ بدوی یا شیخ فلاں تصرف میں اللہ کی طرح ہے، یا اسے بھی اللہ کے ساتھ پکارا جا سکتا ہے یا اس کا بھی اس کائنات میں کوئی عمل دخل ہے تو اس عقیدے کی بنا پر یہ باتیں شرک اکبر ہوں گی۔ لیکن اگر کسی کا عقیدہ اس طرح کا نہ ہو اور بلا ارادہ اس کی زبان پر اس طرح کے کوئی جملے آ جائیں کیونکہ پہلے لوگ اس طرح سے بولا کرتے تھے تو یہ شرک اصغر ہو گا۔

شرک کی ایک اور قسم بھی ہے یعنی شرک خفی۔ بعض علماء نے اسے تیسری قسم شمار کیا ہے، اور وہ اس کی دلیل میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی بڑھ کر اندیشہ ہے؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! فرمایا: وہ مخفی شرک ہے، یوں کہ آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو اور کوئی اسے دیکھ رہا ہو تو وہ اس وجہ سے اپنی نماز کو مزین اور خوبصورت بنا دے۔‘‘( مسند احمد بن حنبل: 3/30 حديث 11270 . ضعيف)

اور صحیح یہ ہے کہ یہ تیسری قسم نہیں ہے بلکہ شرک اصغر ہی میں سے ہے اور اسے خفی یا مخفی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس قسم کی باتیں دل میں آتی ہیں جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے یا کوئی قراءت میں دکھلاوا کرے یا وعظ و تبلیغ میں دکھلاوا کرے یا شہرت وغیرہ کے لیے جہاد کرے، وغیرہ۔

یا اسے خفی اور مخفی اس لیے کہہ دیا گیا کہ بعض لوگوں کے لیے یہ مسائل واضح نہیں ہوتے اور وہ ان کے حکم کے مخفی ہونے کی بنا پر ان کے مرتکب ہو جاتے ہیں، جیسے کہ پیچھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا ہے۔

یا اس طرح سے بھی یہ قسم خفی اور مخفی ہو سکتی ہے حالانکہ یہ شرک اکبر ہے جیسے کہ منافقین کا حال تھا کہ وہ اپنے اعمال محض دکھلاوے کے لیے کرتے تھے اور دلوں میں کفر چھپائے ہوئے تھے اور اسے ظاہر نہ کرتے تھے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿مُذَبذَبينَ بَينَ ذ‌ٰلِكَ لا إِلىٰ هـٰؤُلاءِ وَلا إِلىٰ هـٰؤُلاءِ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبيلًا ﴿١٤٣ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكـٰفِرينَ أَولِياءَ...﴿١٤٤﴾... سورة النساء

’’بلاشبہ منافق اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش میں ہیں اور وہ اللہ انہیں ان کے دھوکے کا بدلہ دے گا، یہ لوگ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی سے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے لیے دکھلاوا کرتے ہیں، اور انہیں یاد کرتے اللہ کو مگر تھوڑا، ان دونوں کے درمیان ڈگمگا رہے ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ اُن کی طرف۔‘‘

ان لوگوں کے کفر اور ریا کے متعلق بے شمار آیات آئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس صورت حال سے محفوظ رکھے۔ اس تفصیل سے جو بیان ہوئی، معلوم ہوا کہ شرک خفی سابقہ دو قسموں سے خارج نہیں ہے۔ یا تو شرک اکبر ہے یا شرک اصغر، اگرچہ اسے خفی یا مخفی کہہ دیا گیا ہے۔ اس طرح شرک کی دو قسمیں ہوئیں: شرک جلی (واضح) اور شرک خفی۔

شرک جلی:۔۔ مثلا مردوں کو پکارنا، ان سے مدد چاہنا اور ان کے نام کی نذریں ماننا وغیرہ۔

شرک خفی:۔۔ جیسے کہ منافقوں کے دلوں میں ہوتا ہے کہ بظاہر تو لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں حالانکہ باطن میں کافر ہوتے ہیں، بتوں کی پوجا کو جائز سمجھتے ہیں اور حقیقت میں یہ لوگ مشرکین کے دین ہی پر ہوتے ہیں تو یہ شرک خفی ہے مگر اکبر ہے، کیونکہ دلوں کے اندر کفر چھپا ہوتا ہے اور شرک خفی اس طرح ہے جیسے کوئی اپنی قراءت سے لوگوں کی مدح چاہے یا نماز یا روزے وغیرہ سے، تو یہ شرک خفی ہے مگر اصغر ہے۔

الغرض شرک کی دو ہی قسمیں ہیں: شرک اکبر و اصغر۔ مگر بعض اوقات یہ خفی ہوتا ہے جیسے کہ منافقین ہوتے ہیں۔ ان کا شرک اکبر، خفی ہوتا ہے۔ یا عام مسلمان کہ ان سے نماز، دعا، صدقہ یا تبلیغ وغیرہ میں کوئی ریا وغیرہ ہو جاتا ہے تو ان کا یہ عمل شرک اصغر ہوتا ہے۔

بہرحال ہر صاحب ایمان پر واجب ہے کہ شرک سے ہر اعتبار سے دور رہے بالخصوص شرک اکبر سے۔ کیونکہ یہی وہ سب سے بڑا گناہ ہے جس سے اللہ عزوجل کی نافرمانی ہوتی ہے اور مخلوق کی ایک بڑی تعداد اس میں ملوث ہے اور یہی وہ عمل ہے جس کے متعلق اللہ نے اپنے اولوالعزم پیغمبروں کے بارے میں فرما دیا ہے کہ:

﴿ وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام

’’اگر بالفرض یہ حضرات شرک کرتے تو جو یہ عمل کرتے رہے سب اکارت ہو جاتے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ ...﴿٧٢﴾... سورة المائدة

’’بلاشبہ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس کے لیے جنت کو حرام قرار دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ...﴿١١٦﴾... سورة النساء

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘

تو جو شخص شرک پر مرا وہ یقینا دوزخی ہے، اور جنت اس پر حرام ہے اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے آگ میں جلے گا۔ اللہ اس سے پناہ میں رکھے۔ اور شرک اصغر ۔۔ یہ بھی کبیرہ گناہ ہے اور اس کا مرتکب انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں زیادہ ہوں تو اسے معاف کر دیا جائے، یا کچھ سزا دی جائے اور پھر معاف کر دیا جائے۔ مگر ایسا آدمی نہ کفار کی طرح ہمیشہ ہمیش جہنم میں پیش رہے گا اور نہ یہ عمل خلود فی النار کو لازم ہے اور نہ اس سے تمام نیکیاں ضائع اور باطل ہوتی ہیں بلکہ صرف وہی عمل ضائع ہوتا ہے جس میں یہ شرک اصغر ہوا ہو۔ مثلا وہ نماز جس میں ریاکاری ہوئی وہی ضائع ہو گی اور اس کا مرتکب گناہ گار ہو گا۔ یا وہ قراءت جس میں ریاکاری ہوئی وہ ضائع ہو گی، اس کا اسے کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ گناہ ہو گا۔ بخلاف شرک اکبر کے یا کفر اکبر کے کہ ان سے تمام کے تمام اعمال ضائع اور باطل ہو جاتے ہیں جیسے کہ فرمایا:

﴿ وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام

’’اگر یہ انبیاء و رسل بھی بالفرض شرک کرتے تو ان کے کیے سب اعمال اکارت جاتے۔‘‘

تمام مردوں، عورتوں، علماء، طلباء بلکہ ہر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھے اور اس میں بصیرت حاصل کرے، توحید اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہو، شرک اور اس کی اقسام اکبر اور اصغر سے بخوبی واقف ہو، اگر کسی سے اس قسم کی کوئی تقصیر ہوتی رہی ہے تو اس سے سچی توبہ کرے اور توحید کا دامن تھامے، اس پر ثابت قدم رہے، اور اللہ کی اطاعت میں زندگی گزارے، اس کے حقوق میں کوئی کمی نہ آنے دے۔ توحید کے بھی حقوق ہیں یعنی فرائض کی بجا آوری اور ممنوعات سے دور رہنا، اس کے بغیر توحید کامل نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ شرک سے بچنا بھی واجب ہے خواہ اصغر ہو یا اکبر۔

شرک اکبر تو سراسر توحید کی ضد ہے بلکہ اسلام ہی کے منافی ہے اور شرک اصغر کمال توحید کے منافی ہے جبکہ توحید کے کمال کو پہنچنا بھی واجب ہے۔ ہم سب پر واجب ہے کہ اس مسئلہ کو خوب سمجھیں اور اس میں بصیرت حاصل کریں اور بڑے اہتمام اور تفصیل کے ساتھ اسے لوگوں تک پہنچائیں تاکہ سب مسلمان ان مسائل میں واضح دلائل پر ہوں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 76

محدث فتویٰ

تبصرے