السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ترازو (میزان اعمال) ایک ہے یا متعدد؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ کچھ نے کہا: میزان کئی ہیں اور کچھ نے کہا صرف ایک ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کے لیے کہیں جمع کا صیغہ آیا ہے اور کہیں مفرد کا۔ مثلا: اللہ عزوجل کے فرامین میں جمع کا صیغہ اس طرح ہے:
﴿ وَنَضَعُ المَوٰزينَ القِسطَ ...﴿٤٧﴾... سورة الأنبياء
’’اور ہم انصاف کے رازو رکھیں گے۔‘‘
اور سورۃ القارعہ میں فرمایا:
﴿فَأَمّا مَن ثَقُلَت مَوٰزينُهُ ﴿٦﴾... سورة القارعة
’’جس کے تول بھاری ہو گئے۔‘‘
اور مفرد صیغہ کے ساتھ معروف حدیث میں آیا ہے:
كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ (صحيح بخارى، كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى: و نضع الموازين القسط ليوم القيامة، حديث: 7563۔ صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء ۔۔، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، حديث: 2694)
"دو کلمات ہیں جو رحمٰن کو بہت محبوب ہیں، زبان پر بڑے ہلکے ہیں مگر ترازو میں بہت بھاری ہوں گے۔"
کچھ علماء نے یوں بھی کہا ہے کہ میزان (ترازو) تو ایک ہے، مگر اس میں تولے جانے والے اعمال وغیرہ بہت زیادہ ہوں گے تو ان کی نسبت سے اسے جمع کہا گیا ہے۔ یا امتوں کے اعتبار سے اسے جمع کے صیغے میں لایا گیا ہے کہ پہلے امت محمدیہ کے اعمال تولے جائیں گے، پھر امت موسیٰ اور امت عیسیٰ کے۔
اور جن حجرات نے کہا کہ ترازو متعدد ہیں کیونکہ لفظ جمع کا آیا ہے تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر امت کے لیے علیحدہ ترازو قائم فرمائے، یا فرائض کے لیے ایک ترازو ہو اور نوافل کے لیے اور ۔۔ اور جو بات مجھے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ میزان تو ایک ہے مگر موزونات (وزن کیے جانے والے اعمال وغیرہ) کے اعتبار سے اسے جمع کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب