السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گناہ گار مومنوں کے لیے عذاب قبر میں تخفیف بھی ہو جاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں، بعض اوقات اس میں تخفیف بھی ہو جاتی ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: "انہیں عذاب ہو رہا ہے، اور کسی بہت بڑی بات پر عذاب نہیں ہو رہا اور یہ بڑی بھی ہے کہ ایک ان میں سے استنجا نہ کیا کرتا تھا۔ یا فرمایا۔ پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خودی کیا کرتا تھا۔" پھر آپ نے کھجور کی ایک تروتازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں چیز اور ہر قبر پر ایک ایک کو گاڑ دیا، اور فرمایا:
’’شاید کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی۔‘‘ (صحيح البخارى، كتاب الوضوء، باب من الكبائر ان لا يستتر من بوله، حديث: 216۔ صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب الدليل على نجاسة البول ۔۔، حديث: 292۔)
یہ حدیث دلیل ہے کہ بعض اوقات عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تخفیف عذاب کے لیے یہ چھڑیاں گاڑنے کی کیا حکمت تھی؟
1: کہا جاتا ہے کہ یہ چھڑیاں جب تک خشک نہ ہوئیں تسبیح کرتی رہیں اور ان کا تسبٰھ کرنا میت کے لیے تخفیف کا باعث بنا۔ چنانچہ اسی سبب سے کچھ لوگوں نے یہ بات نکالی ہے کہ وہ اپنے اموات کی قبروں پر تروتازہ چھڑیاں گاڑتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات حقیقت سے بہت بعید ہے بلکہ چاہئے کہ قبروں پر جا کر ان کے لیے استغفار کیا جائے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔
2: کچھ علماء نے کہا ہے کہ یہ سبب ازحد کمزور ہے۔ کیونکہ یہ چھڑیاں تازہ ہوں یا خشک اللہ کی تسبیح سے رکتی ہی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمـٰوٰتُ السَّبعُ وَالأَرضُ وَمَن فيهِنَّ وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا يُسَبِّحُ بِحَمدِهِ وَلـٰكِن لا تَفقَهونَ تَسبيحَهُم ... ﴿٤٤﴾... سورة الإسراء
’’یہ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور جو بھی کوئی چیز ہے تو وہ اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے لیکن تم ان کے عمل تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے ہو۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں کنکریوں کی تسبیح بھی سنی گئی ہے حالانکہ کنکریاں خشک ہوتی ہیں۔ تو سوال باقی رہا کہ چھڑیوں کی تخفیف عذاب کے ساتھ کیا مناسب تھی؟
اس میں علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل سے یہ امید کی (اور دعا فرمائی) کہ جب تک یہ چھڑیاں تروتازہ رہیں ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے، اور مقصد یہ تھا کہ یہ مدت کوئی زیادہ لمبی نہیں ہے۔ اور اس عمل میں امت کو تحذیر اور ڈرانا ہے کہ پیشاب سے نہ بچنا یا پردہ نہ کرنا اور چغل خوری جیسے غلط کاموں سے بچتے رہیں کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں، جیسے کہ ایک روایت میں آیا بھی ہے کہ ’’ بلى انه كبير ‘‘ [1] ہاں، یہ بڑے ہیں۔‘‘ ایک ان میں سے پیشاب کے بعد استنجا نہ کرتا تھا، جب استنجا نہ کیا تو بلاطہارت نماز پڑھی، اور دوسرا چغل خوری کے ذریعے سے اللہ کے بندوں میں شروفساد پھیلاتا اور ان میں پھوٹ ڈال دیتا تھا۔ اس طرح یہ بہت بڑا اور برا عمل ہوا۔ اور یہی توجیہ ان شاءاللہ حق کے زیادہ قریب ہے کہ یہ شفاعت ایک وقت کے لیے تھی تاکہ امت کے افراد متنبہ رہیں۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دائمی شفاعت سے بخل والی کوئی بات نہیں ہے۔( صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، حديث: 987 و سنن ابي داؤد، كتاب الزكاة، باب فى حقوق المال، حديث:1658)
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ اس تفصیل سے ہمارے پاک و ہند میں مروج بدعات کی قلعی بھی کھل گئی کہ کچھ لوگ دس محرم کو بالخصوص اپنے اموات کی قبروں پر جا کر سرسبز ٹہنیاں رکھتے ہیں۔ حالانکہ حدیث میں مذکور عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ آپ کو ان کی حالت کا مشاہدہ کرایا گیا، اور سبب بھی بتایا گیا تو آپ نے یہ موقف شفاعت فرمائی۔ پھر آپ کے بعد صحابہ میں سے کسی نے کبھی یہ عمل نہیں کیا، نہ معلوم ان لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کے اموات کو عذاب ہو رہا ہے اور ان سبز شاخوں سے تخفیف بھی ہوتی ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب